روایتی پارٹیاں ناکام ہو چکیں، ملک کو تیسری قوت کی ضرورت ہے

روایتی پارٹیاں ناکام ہو چکیں، ملک کو تیسری قوت کی ضرورت ہے
پچھلے کچھ دنوں سے بائیں بازو کی نئی پارٹی کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث نے جنم لیا ہے۔ جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کاوش کو سراہا، وہیں کئی ساتھیوں نے اس عمل پر ڈھیر سارے جائز سوالات بھی اٹھائے۔ ان سوالات کا زیادہ موثر جواب پارٹی پروگرام کے آنے کے بعد ممکن ہوگا تاہم  اس پوسٹ میں میں چند اہم نقاط کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اس پارٹی کی نظریاتی اساس کیا ہوگی۔ یہ اہم سوال ہے کیونکہ اس پارٹی میں مختلف رجحانات سے ساتھی جڑ رہے ہیں۔ پھر کن بنیادوں پر ہم اس پارٹی کو مستحکم کر سکتے ہیں؟

اس پارٹی میں تین نظریاتی رجحان قریب آرہے ہیں۔ ایک طرف نوجوان قوم پرست کارکن ہیں جو ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کیخلاف نئی لیڈرشپ کے ذریعے متحرک ہوئے ہیں، دوسری طرف بائیں بازوں کے کارکن ہیں جنہوں نے گزشتہ تین چار سالوں میں ایک نئے انداز میں لیفٹ کے کام کو نوجوانوں میں آگے بڑھایا اور انہیں عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی جبکہ تیسری جانب جمہوری اور سماجی تحریکوں کے نمائندے ہیں جو اپنے مخصوص ایشوز کے اوپر معاشی، سماجی اور سیاسی جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں یہ رجحانات آپس میں قریب آئے جس کی بنیادی وجہ بڑھتا ہوا ریاستی جبر تھا۔ ایسے میں ان تمام تحریکوں کے کارکنوں کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ روایتی پارٹیاں ان کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اس نظام کے خلاف لڑائی اکیلے یا اپنی ’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘ بنا کر نہیں لڑی جاسکتی۔ یہ عمل اس سوچ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے کہ ہمیں اپنے دکھوں کو جوڑ کر ایک حقیقی عوامی متبادل میں تبدیل کرنا ہوگا۔

پارٹی کا عبوری پروگرام چند دنوں میں پبلک کر دیا جائے گا تاہم  پارٹی کے بنیادی اصول ایسے ہیں جن پر ترقی پسند سوچ کے ساتھیوں کو اکٹھا کیا جاسکتا۔ ان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے بےدخلی، سامراج مخالفت اور ملکی سالمیت کو یقینی بنانا، محکوم اقوام کو معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق دلوانا، نوجوانوں کو سیاسی نمائندگی دینے کے ساتھ ان کو روزگار مہیا کرنا، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا، مزدوروں ،کسانوں اور طلبہ تحریک کو مضبوط کرنا، مذہبی انتہاء پسندی کا مقابلہ کرنا اور ماحولیات کی تباہی جیسے عالمی بحران کا ہنگامی بنیادوں پر حل نکالنا شامل ہیں۔

یہ ایک ایسا ایجنڈا ہے جس کے اوپر عوام کو ملک پر قابض مافیا کےخلاف منظم بھی کیا جا سکتا اور منصفانہ معاشرے کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔ ان نقاط پر ہم آہنگی کے باوجود نئی پارٹی کے اندر تضادات ابھر سکتے ہیں کیونکہ تضاد ایک فطری عمل ہے۔ ماضی میں لیفٹ کی وہ پارٹیاں جو نظریئے کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی یکساں رائے رکھتی تھیں مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں۔ تنظیم کے استحکام کیلئے مکمل نظریاتی یکسانیت سے زیادہ اہم جمہوری کلچر کو اندرونی سطح پر پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ لوگوں کا شعور حالات و واقعات کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے اور اگر اس تبدیلی کے اظہار کےلئے تنظیم کے اندر گنجائش موجود ہو تو تضادات کا با آسانی حل نکالا جا سکتا ہے۔

اس عمل کے اندر کوئی بھی ساتھی ایسا نہیں ہے جس کو سیٹ اور سیاست وراثت میں ملی ہو۔ اس پارٹی کا مقصد ہی وراثتی اور ریاستی سیاسی کو چیلنج کرنا ہے۔ ہمارے لیے جمہوریت کا مطلب ہی عام عوام کی حاکمیت ہے۔ ہماری کوشش یہی ہوگی کہ ہم ثابت کریں کہ نچلی سطح سے اٹھنے والی تحریکیں بھی لیڈر بنا سکتی ہیں اور مڈل کلاس اور محنت کش طبقات کی بنیاد پر پیسے کی سیاست سے لڑا جا سکتا ہے۔ کہ جن اہداف کو یہ نظام ناممکن قرار دیتا ہے، ان کو عوامی قوت کی بنیاد پر ممکن بنایا جاسکتا۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ پارٹی کا اندرونی کلچر اسی جمہوری سوچ کی عکاسی کرے گا۔

ایک آخری وضاحت کرنا ضروری ہے۔ چند ساتھیوں نے کہا کہ نئی پارٹی بنانے کے بجائے موجودہ لیفٹ کی پارٹیوں کو جوڑا جائے۔ ایک تو بات یہ ہے کہ یہ کام ان پارٹیوں کی لیڈرشپ کر سکتی ہے نہ کہ ہم۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم کسی ترقی پسند پارٹی کو توڑ کر نئی پارٹی نہیں بنا رہے بلکہ پورے پاکستان میں سماجی تحریکوں کی نوجوان قیادت کو ایک ’پروگریسو پروگرام‘ پر جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ماڈل لاطینی امریکا سے لیکر یورپی ممالک کی بائیں بازو کی تنظیموں نے کامیابی سے آزمایا ہے اور عوامی تحریکوں کے ذریعے اقدار میں آکر سرمایہ دارانہ نظام کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ اس لئے ہم بائیں بازو کی تنظیموں کو اپنا ساتھی سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہم مل کر فسطائیت کا مقابلہ کریں گے۔

جولائی سے ہم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے اپنے عبوری پروگرام کو مشاورتی عمل کے لئے مختلف تنظیموں کے آگے پیش کریں گے۔ اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجود خلا کو رجعتی قوتیں تیزی سے پر کررہی ہیں۔ تمام ترقی پسند ساتھیوں کی ذمےداری ہے کہ وہ اس بحران میں ایک ایسا عوام دوست متبادل تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کریں جو استحصال اور انتہاپسندی کا راستہ روک سکے۔ امید ہے کہ یہ پارٹی اس اہم جدوجہد میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔

ڈاکٹر عمار علی جان ایک محقق اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔مصنف حقوقِ خلق پارٹی سے منسلک ہیں۔