• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

روایتی پارٹیاں ناکام ہو چکیں، ملک کو تیسری قوت کی ضرورت ہے

ڈاکٹر عمار علی جان by ڈاکٹر عمار علی جان
جون 5, 2021
in تجزیہ
5 0
0
30
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

پچھلے کچھ دنوں سے بائیں بازو کی نئی پارٹی کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث نے جنم لیا ہے۔ جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کاوش کو سراہا، وہیں کئی ساتھیوں نے اس عمل پر ڈھیر سارے جائز سوالات بھی اٹھائے۔ ان سوالات کا زیادہ موثر جواب پارٹی پروگرام کے آنے کے بعد ممکن ہوگا تاہم  اس پوسٹ میں میں چند اہم نقاط کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ اس پارٹی کی نظریاتی اساس کیا ہوگی۔ یہ اہم سوال ہے کیونکہ اس پارٹی میں مختلف رجحانات سے ساتھی جڑ رہے ہیں۔ پھر کن بنیادوں پر ہم اس پارٹی کو مستحکم کر سکتے ہیں؟

RelatedPosts

صحافیوں اور ادیبوں کو سیاسی جماعتوں کا بھونپو نہیں بننا چاہئیے

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

Load More

اس پارٹی میں تین نظریاتی رجحان قریب آرہے ہیں۔ ایک طرف نوجوان قوم پرست کارکن ہیں جو ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کیخلاف نئی لیڈرشپ کے ذریعے متحرک ہوئے ہیں، دوسری طرف بائیں بازوں کے کارکن ہیں جنہوں نے گزشتہ تین چار سالوں میں ایک نئے انداز میں لیفٹ کے کام کو نوجوانوں میں آگے بڑھایا اور انہیں عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی جبکہ تیسری جانب جمہوری اور سماجی تحریکوں کے نمائندے ہیں جو اپنے مخصوص ایشوز کے اوپر معاشی، سماجی اور سیاسی جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں یہ رجحانات آپس میں قریب آئے جس کی بنیادی وجہ بڑھتا ہوا ریاستی جبر تھا۔ ایسے میں ان تمام تحریکوں کے کارکنوں کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ روایتی پارٹیاں ان کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی اندازہ ہوا کہ اس نظام کے خلاف لڑائی اکیلے یا اپنی ’ڈیڑھ اینٹ کی مسجد‘ بنا کر نہیں لڑی جاسکتی۔ یہ عمل اس سوچ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے کہ ہمیں اپنے دکھوں کو جوڑ کر ایک حقیقی عوامی متبادل میں تبدیل کرنا ہوگا۔

پارٹی کا عبوری پروگرام چند دنوں میں پبلک کر دیا جائے گا تاہم  پارٹی کے بنیادی اصول ایسے ہیں جن پر ترقی پسند سوچ کے ساتھیوں کو اکٹھا کیا جاسکتا۔ ان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے بےدخلی، سامراج مخالفت اور ملکی سالمیت کو یقینی بنانا، محکوم اقوام کو معاشی، سماجی اور سیاسی حقوق دلوانا، نوجوانوں کو سیاسی نمائندگی دینے کے ساتھ ان کو روزگار مہیا کرنا، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا، مزدوروں ،کسانوں اور طلبہ تحریک کو مضبوط کرنا، مذہبی انتہاء پسندی کا مقابلہ کرنا اور ماحولیات کی تباہی جیسے عالمی بحران کا ہنگامی بنیادوں پر حل نکالنا شامل ہیں۔

یہ ایک ایسا ایجنڈا ہے جس کے اوپر عوام کو ملک پر قابض مافیا کےخلاف منظم بھی کیا جا سکتا اور منصفانہ معاشرے کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔ ان نقاط پر ہم آہنگی کے باوجود نئی پارٹی کے اندر تضادات ابھر سکتے ہیں کیونکہ تضاد ایک فطری عمل ہے۔ ماضی میں لیفٹ کی وہ پارٹیاں جو نظریئے کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی یکساں رائے رکھتی تھیں مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں۔ تنظیم کے استحکام کیلئے مکمل نظریاتی یکسانیت سے زیادہ اہم جمہوری کلچر کو اندرونی سطح پر پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ لوگوں کا شعور حالات و واقعات کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے اور اگر اس تبدیلی کے اظہار کےلئے تنظیم کے اندر گنجائش موجود ہو تو تضادات کا با آسانی حل نکالا جا سکتا ہے۔

اس عمل کے اندر کوئی بھی ساتھی ایسا نہیں ہے جس کو سیٹ اور سیاست وراثت میں ملی ہو۔ اس پارٹی کا مقصد ہی وراثتی اور ریاستی سیاسی کو چیلنج کرنا ہے۔ ہمارے لیے جمہوریت کا مطلب ہی عام عوام کی حاکمیت ہے۔ ہماری کوشش یہی ہوگی کہ ہم ثابت کریں کہ نچلی سطح سے اٹھنے والی تحریکیں بھی لیڈر بنا سکتی ہیں اور مڈل کلاس اور محنت کش طبقات کی بنیاد پر پیسے کی سیاست سے لڑا جا سکتا ہے۔ کہ جن اہداف کو یہ نظام ناممکن قرار دیتا ہے، ان کو عوامی قوت کی بنیاد پر ممکن بنایا جاسکتا۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ پارٹی کا اندرونی کلچر اسی جمہوری سوچ کی عکاسی کرے گا۔

ایک آخری وضاحت کرنا ضروری ہے۔ چند ساتھیوں نے کہا کہ نئی پارٹی بنانے کے بجائے موجودہ لیفٹ کی پارٹیوں کو جوڑا جائے۔ ایک تو بات یہ ہے کہ یہ کام ان پارٹیوں کی لیڈرشپ کر سکتی ہے نہ کہ ہم۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم کسی ترقی پسند پارٹی کو توڑ کر نئی پارٹی نہیں بنا رہے بلکہ پورے پاکستان میں سماجی تحریکوں کی نوجوان قیادت کو ایک ’پروگریسو پروگرام‘ پر جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ماڈل لاطینی امریکا سے لیکر یورپی ممالک کی بائیں بازو کی تنظیموں نے کامیابی سے آزمایا ہے اور عوامی تحریکوں کے ذریعے اقدار میں آکر سرمایہ دارانہ نظام کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ اس لئے ہم بائیں بازو کی تنظیموں کو اپنا ساتھی سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ہم مل کر فسطائیت کا مقابلہ کریں گے۔

جولائی سے ہم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے اپنے عبوری پروگرام کو مشاورتی عمل کے لئے مختلف تنظیموں کے آگے پیش کریں گے۔ اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجود خلا کو رجعتی قوتیں تیزی سے پر کررہی ہیں۔ تمام ترقی پسند ساتھیوں کی ذمےداری ہے کہ وہ اس بحران میں ایک ایسا عوام دوست متبادل تشکیل دینے میں اپنا کردار ادا کریں جو استحصال اور انتہاپسندی کا راستہ روک سکے۔ امید ہے کہ یہ پارٹی اس اہم جدوجہد میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔

Tags: بائیں بازو کی سیاستپاکستانی سیاستعمار علی جانمزاحمتی سیاستنئی سیاسی جماعت
Previous Post

وکی پیڈیا کی جانب سے مشہور ڈرامہ خدا اور محبت ‘اسلامی رومانس’ قرار

Next Post

شاہ محمود کے ستائشی بینرز پر انہیں ’سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی‘ قرار دے دیا گیا

ڈاکٹر عمار علی جان

ڈاکٹر عمار علی جان

ڈاکٹر عمار علی جان ایک محقق اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔مصنف حقوقِ خلق پارٹی سے منسلک ہیں۔

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

by طالعمند خان
جنوری 26, 2023
0

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات...

Load More
Next Post
شاہ محمود کے ستائشی بینرز پر انہیں ’سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی‘ قرار دے دیا گیا

شاہ محمود کے ستائشی بینرز پر انہیں ’سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی‘ قرار دے دیا گیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In