زاہد ڈار، ’عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ‘

زاہد ڈار، ’عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ‘
میں جب بھی کبھی ان سے پوچھتا کہ اس کتاب اور ادیب کے بارے میں آ پ کی کیا رائے ہے تو وہ زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب دیکھتے۔ اس زہرخند میں سب کچھ پنہاں ہوتا جسے میں سمجھ جاتا تھا ۔ درمیانہ قد، ناک پر عینک جمائے قمیض اور پائجامہ میں ملبوس ہاتھوں میں دو تین کتابیں اٹھائے ہوئے پاک ٹی ہاؤس کی طرف گامزن ۔ زاہد ڈار صاحب کا یہ روزانہ کا معمول ہوتا تھا۔ ٹی ہاؤس میں ان کی میز مخصوص ہوتی تھی جہاں وہ خاموشی سے آکر بیٹھ جایا کرتے تھے اور ٹی ہائوس کا ویٹر ’بنجارہ‘ان کے آگے چائے کی پیالی رکھا کر چلا جاتا تھا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے تھے۔



زاہد ڈار کی نظمیں آسمان پر اڑتے ہوئے پرندوں کی مانند ہیں۔ پھڑپھڑاتے ہوئے کبوتر جو اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں، دانہ دنکا چگتے ہیں اور درختوں کی شاخوں پر کچھ لمحے سستانے کے بعد کسی اونچی پرواز کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ زاہد ڈار کے دوستوں میں ناصر کاظمی اور انتظار حسین خاص طور سے قابل ذکر ہیں جن سے ان کی گہری چھنتی تھی ’’محبت اور مایوسی کی نظمیں‘‘ زاہد ڈار کی شاید اکلوتی تصنیف ہے۔ محمد سلیم الرحمن سے بھی ان کی دوستی تھی میں کبھی کبھار ان کے لیے کتاب لے کر ٹی ہاؤس جاتا تھا لیکن اس ضمن میں یہ احتیاط ضرور کیا کرتا تھا کہ کتاب عام یا معمولی نہ ہو وگرنہ مجھے ان کی نظروں کے تیروتفنگ کانشانہ بننا پڑ سکتا تھا۔ میں کبھی ان کی نجی زندگی کے بارے میں نہیں جان سکا۔وہ اپنی ذات میں ایک تہذیبی استعارہ تھے۔

زاہد ڈار کی کچھ نظمیں

واپسی

دکھ کے پھول، بدی کے شعلے، سکھ کی گھاس

سب بکواس

لرمنتوف اور دوستوفسکی، بودلئیر اور استاں دال

ایک سے ایک وبال

گوتم بدھ اور افلاطون

محض جنون

آنکھیں کھول نہ اندھا بن

تن اور من ہے تیرا دھن

تارے چھوڑ، زمیں کو دیکھ

اس کے ساتھ بندھے ہیں لیکھ

محنت کر اور روٹی کھا

آجا بھائی واپس آ

میں نے سب کو چھوڑ دیا

میں لوٹ آیا

خاک سے ناطہ جوڑ لیا

میں گھر آیا

روٹی،پانی،دودھ اور مکھن

میرا جیون

نانک دیو اور بلھے شاہ

سیدھی راہ

مجھ کو مٹی پیاری ہے

پیارا ہر نر ناری ہے

دن بھر محنت کرتا ہوں

اور راتوں کو سوتا ہوں

تنہائی میں روتا ہوں

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوہا نامہ

میں ہمیشہ کی طرح کیچڑ میں لت پت آج بھی اس شہر کی بدبو بھری گلیوں میں پاگل بلیوں کی کھوج میں بھوکا پھرا کرتا ہوں لیکن بلیاں

جانے نہ جانے کس مکاں میں کس کی راتوں

میں چھپی بیٹھی پڑی سوتی ہیں اب تو راستے خاموش ہیں

بلیوں کی کیا خطا گر میں یہاں بھوکا مرا کرتا ہوں

اس میں بھولی بھالی بلیوں کی کیا خطا ہے لوگ

کہتے ہیں بچاری نرم و نازک چھاتیوں اور چاند

جیسے چوتڑوں والی الف۔۔۔ کہنے کو ملبوس۔۔۔۔

ننگی بلیاں نردوش ہیں

اور اب اک سوچ میرے دل میں آتی ہے

جگاتی ہے مرے شیطان کو جو مجھ سے کہتا ہے

کہ میں یہ بے نیازی چھوڑ دوں

سوچتا ہوں کیوں نہ میں اس شخص یا اس چیز

یا احساس یعنی خوف کو جو میرے سر پر آسماں

کی شکل میں چھایا ہوا ہے، اپنی نفرت کا

نشانہ کور بینی کا بہانہ کر کے ٹھہراؤں گراؤں توڑ دوں

کیوں نہ میں اس شہر کی ان محفلوں میں

جو مری دشمن بنی ہیں روز جایا آگ برسایا کروں

کیوں نہ میں ہاں کیوں نہ میں ہٹلر۔۔۔۔۔ مگر یہ قہقہوں کی لہر سی کیسی؟۔۔۔ کہیں وہ بلیاں۔۔۔۔

اف کس طرف جاؤں چھپوں میں کیا کروں

تنہائی کے دشت کا دیوداس ۔۔حیرتوںکے جہاں میں گُم ،سورج سے ہم کلام،خوابوں سے ہم کلام،کتابوں میں کھویا ، لفظوں میں کسی جہانِ معنی کی تلاش میں سرگرداں زاہد ڈار جس نے زندگی خاموشی سے تما م کی۔۔ شور اور ہنگاموں سے ہمیشہ دور رہا۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد بھی گہرا مرگ سکوت ہے۔۔۔ پاک ٹی ہاؤس جو زندگی بھر اس کے لیے گوشہ تنہائی تھا آج ایک ’بھوت بنگلہ‘ بن چکاہے۔ اس کی وجہ موذی وبا کے باعث لاک ڈاؤن ہے۔

سب کچھ آن لائن ہے زندگی آف لائن ہو چکی ہے ۔ سنا ہے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس آن لائن ہوتے ہیں ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین آنجہانی ہوچکی ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لاہور کا ثقافتی اور ادبی منظر بہت پُررونق اور رنگین تھا ۔جیسے آسمان قوس و قزح کے رنگوں سے رنگین ہوتا ہے۔ ایسی شخصیات موجود تھیں جو اپنی ذات میں دبستان تھیں،ماضی کو اُجالا جارہا تھا ۔ مستقبل کے نقوش نکھارے جارہے تھے ،ٹی ہاؤس میں ہر گوشہ آباد تھا ۔ اجلاس ہوتے اور بحث و مکالمے کا چلن عام تھا ۔انتظار حسین باقاعدگی سے پاک ٹی ہاؤس آتے تھے ۔ منو بھائی ،شہرت بخاری، حبیب جالب ،جاوید شاہین کا آنا جانا لگا رہتا ۔ روزانہ آنے والوں میں زاہد ڈار تھے ۔ صبح دس گیارہ بجے سے شام تک وہ ٹی ہاؤس میں موجود ہوتے تھے ۔ بہت ہی کم ایسا ہوتا کہ کوئی اجنبی ان کی میز کے گرد خالی کرسی پر بیٹھتا۔ یہ اعزاز ان کے ہم نواؤں اور کچھ میرے جیسے شناساؤں کو حاصل تھا ۔ لیکن میرا بھی ان کے ساتھ مکالمہ محض ایک دوجملوں تک ہی رہتا تھا۔ کیا وہ مردم بیزار تھے- بظاہر تو ایسا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ میں جو ان کے بارے میں جاننا چاہتا تھا آج ان کی نظموں میں تلاش کر رہا ہوں

زاہد ڈارکی کچھ نظمیں

وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے اور کبھی نہیں بھولے گا

سڑک کے کنارے کھڑا میں سورج کے ساتھ باتیں کر رہا تھا

لوگ گزر رہے تھے

میں عورتوں کی طرف دیکھ رہا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اُن لوگوں کی آواز سنو

جو ابھی دنیامیں آئے ہی نہیں

زندگی اونچے پہاڑوں سے اُتر آئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر میں اُن کے سواگت کے لیے

دھوپ نے آگ لگا رکھی ہے

اور تنہائی میں جلتے ہوئے ارمانوںکی

راکھ کو وقت نے دھو ڈالا ہے

اب ہمارے لیے اُمید نہیں ہے

اب ہمارے لیے آرام نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض انسان مگر

ایسے جلتے ہیں کہ  جیسے سورج

یہ وہ دیوانے ہیں

جو اندھیرے میں اُتر جاتے ہیں

اور جب لوٹ کے آتے ہیں تو سورج کی طرح

اپنی گرمی سے جلاتے ہیں ہمیں

اور طاقت بھی عطا کر تے ہیں

جیسے خوابوں میں کسی عورت کا

جسم آتا ہے جلاتا ہے ہمیں

اور طاقت بھی عطا کر تا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی میں ایک بار

میرے اور تنہائی کے درمیان کھڑی تھی

وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے

وہ  دن مجھے کبھی نہیں بھولے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد ڈار کے دوستوں میں ناصر کاظمی بھی تھے ۔۔۔۔میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔یہ ماضی بعید کا زمانہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج زاہد ڈار کے رخصت ہونے پر مجھے ناصر کاظمی کے یہ اشعار یاد آرہے ہیں ۔جو شاید ان ہی پر صادق آتے ہیں

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کربس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستار ہ شام بن کے آیا برنگ خواب سحر گیا وہ

خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم

وہ بوئے گُل تھا کہ نغمہ جاں،مرے تو دل میں اُتر گیا وہ

وہ مے کدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

صدا رہے اُس کا نام پیار سنا ہے کل رات مرگیا وہ

زاہد ڈار کی زندگی کی کہانی نامعلوم ہے ۔۔۔ان کی آنکھوں نے زمانے کی جن رنگینیوں اور ستم ہائے روزگار دیکھے ہوں گے وہ کتاب بھی ان کے ساتھ دفن ہوگئی ، محمد سلیم الرحمن یقینا ان کی بابت کچھ علم ضرور رکھتے ہوں گے ۔ خاص طور پر ان کے ادبی قد کاٹھ کے حوالے سے ان کی شخصیت کے پوشیدہ رنگوں کی بابت وہ بہت کچھ جانتے ہوں گے ۔

آج قحط الرجالی ہے ۔۔۔۔۔کتاب کی جگہ خوراک نے لے لی ہے ۔ کتابیں تو شائع ہوتی ہیں مگر ان کے لفظ بے روح اور بے جان ہیں ۔  پبلشرز دھڑادھڑا کتابیں چھاپ رہے ہیں، مزنگ کے پبلشرز سینکڑوں میں سے کو ئی ایک آدھ عمدہ شاعری کی کتاب یا نثر پارہ بھی چھاپ دیتے ہیں، قدیم اور نایاب کتب ٹی ہاؤس کے سامنے چھوٹی سڑک پر  ہر اتوار کوبکھری ہوتی ہیں جن میں سویرا ،نقوش اور فنون بھی ہوتے ہیں ۔غالب ، فیض ،منٹو اور بیدی بھی مل جاتے ہیں۔ روایت پسند ،عہد ساز ،چلے گئے، جدیدیے خاموش ہوگئے، ترقی پسند افسانہ بن گئے۔اب نومولود مبینہ ادیب آجا رہے ہیں ۔جن کی کتب کی تقاریب بزورِ بازو ہوتی ہیں اور میںشامل مقررین ’’من ترا حاجی بگوئم تُو مرا ملا بگو‘‘کی مثال دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب وہ جسے بک اسٹال سے پیسے دے کر خریدا جائے ۔ دل میں ایک لہرا سی اٹھے کہ اس کتاب کے بغیر حالی ہاتھ نہیں جانا ہے ۔آج کا لکھنے والا جب اپنی نئی کتاب دیتا ہے تو وہ چائے کا کپ ر کھنے کے کام آتی ہے ۔یہ محض چند ایک لکھنے والے ہیں ۔خدانحواستہ تما م نئے لوگ ایسا ہنر نہیں رکھتے ۔

زاہد ڈار کا زمانہ بہت شاندار زمانہ تھا ، وہ بہت اچھے وقت پر رخصت ہوا ۔درختوں کے ہاتھ خالی ہی ہونا تھے ۔پھول نہیں کھلے تھے ۔بسنت پر پابندی تھی ۔ رقص و موسیقی ناپید تھے۔ تما م کتابیں وہ پڑھ چکا تھا ۔ اب وہ کتابیں کہاں ہیں ؟مجھے ان کی تلاش ہے ۔ اور اس کی غیر مطبوعہ شاعری کو بھی سنگ میل کے افضال احمد تلاشنا چاہیے۔ جب ان کی بابت بات کی جاتی یا ان کے حوالے سے پوچھا جاتا تو عموماً یہی سننے کو ملتا وہ ’’ٹی ہاؤس والا‘‘ کہاں ہوگا ۔ آج ’’ٹی ہائوس والا‘‘ ہم سے جدا ہو چکا ہے اور پاک ٹی ہاؤس بند ہے۔اور وہ کتابیں سوگوار ہیں جنہیں وہ پڑھا کرتا تھا۔ بلاشبہ زاہد ڈار ایک تہذیبی استعارہ تھے ۔ ٹی ہاؤس والا چلاگیا ۔ کچھ یادیں چھوڑگیا اور کچھ ان کہی جسے میرے جیسے لوگ سننا چاہتے تھے۔

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔