شاہ محمود سوچتے تو ہوں گے بلاول کو واپس بلا کر غلطی کر دی

شاہ محمود سوچتے تو ہوں گے بلاول کو واپس بلا کر غلطی کر دی
بلاول بھٹو زرداری اور شاہ محمود قریشی کے درمیان پارلیمان میں ہوئی شدید جھڑپ کی شروعات یقیناً شاہ محمود کی طرف سے ہوئی جب بلاول پارلیمان سے جا رہے تھے اور وزیرِ خارجہ نے ان کو آوازیں دے دے کر بلایا کہ ان کی بات سن کر جائیں۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر میں دم تھا۔ وہ بولتے اچھا ہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ دلائل بھی تگڑے تھے۔ خصوصاً جو نکات انہوں نے سندھ اسمبلی کے حوالے سے اٹھائے جہاں اگلے روز سپیکر صوبائی اسمبلی نے نہ صرف پاکستان تحریکِ انصاف کے 8 اراکین کا سیشن میں داخلہ بند کر دیا بلکہ اسمبلی کی عمارت کے دروازے بھی ان پر بند کر دیے گئے جو کہ ہر طرح سے غیر جمہوری اور غیر قانونی تھا۔

تاہم، بلاول کی جانب سے ان کا جواب کچھ زیادہ ہی زوردار تھا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک شاید وہ قریشی صاحب کے ساتھ ذاتیات پر بھی اتر آئے تھے۔ لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ بلاول بھی ایک انسان ہیں، نوجوان ہیں، ان کے ساتھ جس قسم کی بدتہذیبی اس سیشن کے دوران حکومتی اراکین اسمبلی نے روا رکھی، اس کے بعد ان کو آوازیں دے کر بلانا اور پھر چیلنج کرنا کہ میری بات سنیں اور بارہا ان کا نام لے کر چیلنج کرنا کہ اگر عمران خان کی تنقید کے دوران کوئی بات ہوئی تو وہ بھی تقریر نہیں کر سکیں گے، کسی بھی صورت ایک وفاقی جماعت کے چیئرمین اور اس کے پارلیمانی لیڈر کے شایانِ شان نہیں تھا۔

بلاول نے جواباً وہ سب کچھ کھول کر بیان کر دیا جو وہ اپنی جماعت کے ایک سابق سینیئر رہنما کے بارے میں شاید بہت عرصے سے کہنا چاہتے ہوں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح شاہ محمود قریشی کو ان کی جماعت نے نوازا، انہیں عزت بخشی لیکن بدلے میں شاہ محمود نے ان کی جماعت کے وزیر اعظم کے خلاف سازش کی، اور دنیا کے طاقتور ممالک میں جا کر انہیں پیغامات دیے کہ یوسف رضا گیلانی کو ہٹا کر انہیں وزیر اعظم بنانے میں مدد دی جائے۔ نیا دور کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ شاہ محمود نہ صرف باہر کے ممالک میں اپنے لئے لابنگ کر رہے تھے بلکہ پاکستان کے اندر بھی لابنگ کر رہے تھے اور ایک صاحب سے بات چیت میں تھے جنہوں نے بعد ازاں پاکستان تحریکِ انصاف کو کھڑا کرنے میں بھی مدد فراہم کی جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ یقیناً مرتضیٰ سولنگی یہاں سابق انٹلیجنس چیف احمد شجاع پاشا کی طرف اشارہ کر رہے تھے جن پر موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ماضی میں متعدد مواقع پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ ان کی جماعت کے لوگوں کو توڑ توڑ کر عمران خان سے ملوا رہے تھے اور اس بات کی تصدیق کے بعد انہوں نے تب کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ان کی شکایت بھی کی تھی۔

شاہ محمود قریشی نے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں نہ صرف اپنی جماعت پر الزامات لگائے تھے کہ انہیں خاموش رہنے کے لئے کہا گیا بلکہ وزارت کی تبدیلی کے ردعمل میں کابینہ سے علیحدگی بھی اختیار کر لی تھی۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے نکلوانے میں سب سے کلیدی کردار خود جنرل پاشا نے ہی ادا کیا تھا اور اس کی گواہی خود ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں دی۔ 17 فروری 2011 کو شاہ محمود قریشی نے اپنی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی میں تھے، ہیں اور رہیں گے کیونکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نظریات پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن پھر چند ہی ماہ بعد وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے۔ اس دوران ان کی نواز شریف سے بھی بات چلتی رہی۔ 2013 کے الیکشن تک بارہا ایسے مواقع آئے جب شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کو تیار تھے۔ بڑی مشکل سے پارٹی میں ٹکے رہے۔

یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ شاہ محمود قریشی کے والدِ گرامی پنجاب کے گورنر اور جنرل ضیاالحق کے قریبی مشیران میں سے تھے۔ یہ خود بھی جنرل ضیا کی بنائی مسلم لیگ کا حصہ تھے۔ 1988 اور 1990 کے انتخابات میں مسلم لیگ ہی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت انہوں نے 1993 میں جا کر اختیار کی جب نواز شریف صاحب سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو کر ان کو گھر بھیج چکی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی میں بھی شمولیت تب اختیار کی جب یہ جماعت گذشتہ تقریباً دو دہائیوں میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے قریب آئی تھی۔

بلاول نے عمران خان کو بھی خبردار کیا کہ شاہ محمود قریشی ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کریں گے۔ "میں تو اس شخص کو بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں۔ یہ اپنی وزارت کی خاطر اگلی باری پھر زرداری کے نعرے بھی لگاتا تھا۔ یہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں جیے بھٹو کے نعرے بھی لگاتا تھا۔"

بلاول کے ان الفاظ پر شاہ محمود اتنے سیخ پا ہوئے کہ گیلانی صاحب کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانے میں پیپلز پارٹی سے ہوئی مبینہ ڈیل کی کہانی ہی کھول ڈالی۔ بولے گیلانی سرکاری ووٹوں سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنا۔ اب بات تو یہ سچ ہے لیکن کسی حکومتی وزیر کی جانب سے پہلی مرتبہ سامنے لائی گئی ہے۔ انہوں نے جواب میں بلاول کو ان کی عمر کے حوالے سے طعنے بھی دیے۔ شاید ان کے پاس ایک یہی آخری حربہ رہ گیا تھا۔ کیونکہ اس تابڑ توڑ حملے کے لئے شاید وہ تیار نہیں تھے۔ ویسے بعد میں سوچ تو رہے ہوں گے کہ اچھا بھلا جا رہا تھا، واپس بلا کر غلطی کر دی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.