علم و شعور سے عاری اسناد کے ذخائر

علم و شعور سے عاری اسناد کے ذخائر
بچے کی پہلی درس گاہ  "ماں کی کوکھ" کو کہا جاتا ہے۔بلا شبہ ماں وہ پہلا اسکول ہے جو محبت، شفقت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کا خواندہ  اور با شعور ہونا  انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے ، وگرنہ اولاد کے لئے سماج میں تہذیب کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنا ممکن نہیں رہتا، کیوں کہ اس کی تربیت میں واضح خامیاں نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

نومولود  زندگی کے چند قیمتی سال اپنی ماں کے آنچل سے لپٹ کر گزارنے کے بعد دنیا سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نکھارے کے لئے اسکول داخل کروا یا جاتا ہے۔ والدین اچھے اور معیاری اسکول کی تلاش میں ہر صاحب الرائے رفیق سے مشورہ کرتے ہیں ، پھر ہی بچے  کے نصیب میں تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

عام طور پر تعلیم کے بنیادی مفاہیم  شعور، واقفیت ، آگاہی حاصل کرنے سے ہیں ۔ "ایجوکیشن " لاطینی زبان کی اصطلاح ہے جس کے معنی نشوونما کرنا،تربیت اورپرورش کرنا ہے۔ یعنی تعلیم سے مراد نئی نسلوں تک معاشرتی اقدار اور ادب  و ثقافت کی منتقلی ہے۔

البتہ پاکستان میں تعلیم کا مفہوم کچھ اور تصور کیا جاتا ہے ۔ متوسط طبقہ  کی نظر میں تعلیم صرف مزدوری سے نجات اور پُر تعیش کمرے میں نوکری کرنے کا ذریعہ ہے۔ وراثتی کاروبار کرنے والے تعلیم کو صرف ڈگری کے حصول تک محدود رکھتے ہیں۔ اور درمیانہ طبقہ معاشرے میں عزت و وقار کے ساتھ   روزگار کا ذریعہ  بنانے کے لئے حصول ِ علم کو ناگزیر سمجھتا ہے۔چلیں ہم مان جاتے ہیں، تعلیم ان معاملات میں ضروری ہے لیکن شعور، دانائی،آسان الفاظ میں "سمجھ بوجھ" صرف ڈگری سے تو نہیں آتی۔

آج کل سندھ میں میٹرک کے امتحانات منعقد کیے گئے ہیں۔ بچوں کی بڑی تعداد  ابتدائی تعلیم کا امتحان دینے مراکز جا رہی ہے۔ امتحان دینے کے لیے بنیادی آلات میں قلم (پین) ، مارکر ( موٹی لکھائی کے لئے) ، گتا  اور  ریاضی کے پرچے کے لئے   حساب گر (کیلکولیٹر) کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن نیوز چینلز پر  مختلف مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ موبائل فون، نقل میں معاونت کے لئے چھوٹی پرچیاں (بوٹیاں) استعمال میں لائی جا رہی ہیں۔ بلاگ لکھتے وقت ہی خبر موصول ہوئی کہ ریاضی کا پرچہ امتحانی مرکز میں پہنچنے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر میسر تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر مشیِرجامعات و تعلیمی بورڈز  سندھ نثار کھوڑو  ناظم امتحانات پر  "صرف" برہم  ہوئے، موقع پر چوکا  ناظمِ امتحانات نے بھی مار دیا،موصوف نے نا اہلی کی بالٹی سینٹر کنٹرول آفیسرزپر پھینک دی۔ دنیا کے گول ہونے کا تو پتا ہے لیکن  کہانی گول کرنے کا یہاں سے معلوم ہو رہا ہے۔  اس موقع پر بچوں سے گزارش ہے کہ بھئی ! اگر صرف سند ہی چاہئیے تو جعلی رنگین پرنٹ  ہی بنوا لو، کیوں اُن بچوں پر ظلم کر رہے ہو جو دن رات ایک کر کے سبق یاد کرتے ہیں۔ نہتے بچے اپنے اماں ابّا سے تحفوں کے وعدے کرواتے ہیں، پوزیشن حاصل کرنے کے خواب دیکھتے ہیں، کیوں ان کے خوابوں کی بھیانک تعبیر بنتے ہو۔

ایسے پرچے پاس کرنے والوں کا تھوڑا اور پوسٹ مارٹم کرتے ہیں۔ چلیں فرض کریں! نقل سے متعلق مفصل جد وجہد کرنے کے بعد آپ متعلقہ امتحان پاس کر لیتے ہیں۔ اور اِسی ڈگر پر چلتے ہوئے مزید امتحانات بھی پاس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی میں بھی یہ جھک مارتے ہیں۔ آخر کار پروفیشنل کوالیفیکشن  پوری ہو جاتی ہے۔ پھر تگڑے ذرائع استعمال کر کے نوکری پر لگ جائیں گے۔ وہ بھی سرکاری، موجاں ای موجاں!

اب بھائی گہرا سانس لیں اور سوچیں،آپ  ملک کی ترقی کے لئے کیا ایسا کریں گے  کہ ملک آپ پر مان کرے۔ چلو! ملک کو چھوڑیں، اُس ادارے کے مفاد میں کون سی تدابیر کے ذخائر پیدا کریں گے کہ وہ  بامِ عروج   پر پہنچے۔

قارئین ِ گرامی! یہی ہمارا اصل چہرہ ہے۔ ڈگری اور بعد ازاں نوکری کے حصول کی دوڑ میں تعلیمی نظام اور خاص طور پر ریاست کے نظم و نسق کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔

یہ انداز سال ہا سال سے چلتا آ رہا ہے، رہی سہی کسر سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم کے کاروبار نے پوری کر دی ہے۔ اسکول بھی جاؤ، اکیڈمی بھی جاؤ، رٹا لگاؤ اور امتحان پاس کرو۔ اتنا سرمایہ صرف رٹے کے لئے کیوں صَرف کرنے میں مصروف ہیں۔ گھر میں کتاب بینی کا ماحول کیوں نہیں پروان چڑھاتے ؟  ذرا سوچیں، بچوں کو کتاب بینی کی جانب راغب کیا جائے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر کام کیا جائے، انھیں زندگی کے اصل مقصد سے روشنا س کرایا جائے، وہ بچے اپنی تخیلاتی صلاحیتوں سے کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ لاکھوں روپے کی اسناد حاصل کر کے بھی ہم نہ سائنس دان پیدا کر رہے ہیں، نہ  ہی  صحیح معنوں میں کو ئی قابل ِ ذکر شخصیت۔   تعلیم کی تعریف کو مزید سمجھنے کے لئے آپ  سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات کی تفسیر ہی پڑھ لیں، پڑھنے ، کھوجنے کے علاوہ کوئی تلقین نہیں کی گئی۔

معاشرے میں ذہنی اعتبار سے  بہت کچرا ہو چکا ہے۔ کم سے کم اگلی پود کے لئے تو سُکھ  رکھ جائیں۔  اب  بھی وقت ہے ، ذہانت کی آبیاری کریں ۔ ذخائر معدنیات کے  اچھے لگتے ہیں، اسناد کے نہیں۔

اُسامہ غیور اخترایک صحافی ہیں، نجی چینل میں نیوز اینکر اور نجی اخبار میں کالم نگار ہیں۔فنون ِلطیفہ سے شغف رکھتے ہیں اور ریڈیو پاکستان لاہور مرکز میں بطور صداکار فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔