• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, فروری 3, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

لندن جا کر ہی بیٹھنا تھا تو نوجوانوں کو ایسٹبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

عماد ظفر by عماد ظفر
نومبر 16, 2019
in تجزیہ, سیاست
2 0
0
لندن جا کر ہی بیٹھنا تھا تو نوجوانوں کو ایسٹبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
12
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

نواز شریف اور مریم نواز نے بالآخر ایک طویل خاموشی توڑتے ہوئے پچھلے کچھ دنوں سے دوبارہ بیانات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف اور مریم نواز کے لندن بیٹھ کر داغے گئے بیانات مسلم لیگ نون کو ریاستی جبر اور انتخابات میں دھاندلی سے بچانے کے لئے کافی ہیں؟ ابھی تک کی صورتحال دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محض لندن میں بیٹھ کر بیانات دینے سے بات ہرگز نہیں بنے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب اس جماعت کے امیدواران برائے قومی اور صوبائی اسمبلی کو مختلف ہتھکنڈوں کی مدد سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور انہیں عدلیہ اور نیب کی مدد سے شکار کر کے انتخابی اکھاڑے سے ناک آوٹ کیا جا رہا ہے، نواز شریف اور مریم نواز کا لندن میں بیٹھے رہنا اور پاکستان واپس نہ آنا مسلم لیگ نواز کی انتخابات میں شکست کا باعث بنتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ کڑا امتحان شہباز شریف کی صلاحیت سے کہیں بڑا ہے

شہباز شریف جو کہ اس وقت مسلم لیگ نواز کے صدر ہیں کے لئے یہ کڑا امتحان ان کی اہلیت اور صلاحیت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہباز شریف ویسے بھی نواز شریف کے بیانئے سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے ارکان کی گرفتاری کا معاملہ ہو یا نااہلی کا یا پھر ممبران کو ہراساں کیے جانے کا، شہباز شریف ان معاملات میں زبان کو تالہ لگا کر خاموش بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں کامران خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شہباز شریف یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ وہ مقتدر قوتوں سے ڈکٹیشن لینے کے لئے بالکل تیار ہیں بلکہ وہ تو یہ بھی فرما چکے ہیں کہ معاشی اور خارجہ پالیسیوں کو بناتے وقت جرنیلوں کے ساتھ مشاورت کرنا بے حد ضروری ہے۔ یعنی شہباز شریف بھی عمران خان کی مانند صرف حصول اقتدار کو اول و آخر مقصد گردانتے ہوئے گذشتہ ستر برس کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہیں۔

RelatedPosts

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

‘ہائبرڈ تجربہ ناکام ہوا تو معاشی عدم استحکام پیدا ہوا جو ڈیفالٹ تک لے آیا’

Load More

عمران خان یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ  وہ اگلے وزیر اعظم ہیں

دوسری جانب نواز شریف اب کھل کر خفیہ اداروں کی انتخابات میں پری پول رگنگ کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں۔ ایک ہی سیاسی جماعت کے دو مختلف بیانئے ہیں اور اس صورتحال سے مسلم لیگ نواز کا ووٹر انتہائی نالاں دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان راولپنڈی والوں کی آشیرباد سے کم سے کم عوام میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ بیساکھیوں اور الیکٹیبلز کے سہارے وہ آئندہ انتخابات کے بعد وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں محض لندن میں بیٹھ کر بیانات دینے سے نواز شریف کا ‘ووٹ کو عزت دو’ کا بیانیہ نہ صرف دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس جماعت کا ووٹر بھی مورال کھونے لگا ہے۔

پہلی بار میاں نوازشریف کی طرف سے نام لے کر حساس اداروں پر سیاست میں مداخلت کے براہ راست الزامات۔ pic.twitter.com/giLSQq75QR

— Farid Qureshi (@faridque) June 30, 2018

کیوں نادیدہ قوتوں کے خلاف کھڑا کروا کر کے انہیں انہی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا؟

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز نے آخر میں لندن جا کر ہی بیٹھنا تھا اور انتخابی مہم کے عمل سے پرے رہنا تھا تو پھر ‘ووٹ کو عزت دو’ کا انتخابی نعرہ اور ایک اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئے کی بنیاد رکھ کر پنجاب کی مڈل کلاس کے نوجوانوں کو ایسٹبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر شہباز شریف نے بطور صدر مسلم لیگ نواز نادیدہ قوتوں کے آگے سر جھکانے کا فیصلہ ہی کرنا تھا تو پھر ایک عام ووٹر اور ورکرز کو کیوں نادیدہ قوتوں کے خلاف کھڑا کروا کر کے انہیں انہی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا؟ یہ قریب قریب اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا اختتام ہے اور اس جدید دور میں یہ توقع کرنا کہ لندن سے بیٹھ کر پارٹی معاملات چلائے جائیں گے یا خود لندن میں بیٹھ کر یہ توقع کرنا کہ ووکر اور ووٹر جیلیں کاٹے یا صعوبتیں برداشت کرے ایک غیر دانشمندانہ اقدام اور سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ قربانی ہمیشہ لیڈر دیتا ہے اور پھر ورکرز اور عوام اس کے نظریے کی بقا کی خاطر بقیہ لڑائی لڑتے ہیں۔

Mashallah, Shehbaz sharif in his interview with Kamran khan has proven himself to be everything that boys want to see in a PM. Near perfection. I’ll be very very disappointed if things don’t get better miraculously in nleague’s favour in the coming days

— Basit (@iBasitt) June 29, 2018

جمہوریت کی جنگ لڑنی ہے تو پھر انہیں جلد سے جلد وطن واپس آ کر قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا

یہ 1999 نہیں ہے کہ کوئی ڈیل یا عذر پیش کر کے خود جلاوطنی اختیار کی جائے اور ووٹرز یا ورکرز سے توقع کی جائے کہ لیڈروں کے حصے کی جیلیں وہ کاٹیں۔ راقم کئی بار عرض کر چکا ہے کہ اینٹی ایسٹبلشمنٹ یا مزاحمتی سیاست کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوا کرتا اور یہ راستہ ازل سے بےپناہ قربانییوں کا طالب ہے۔ گڑھی خدا بخش کا قبرستان جہاں ذوالفقار بھٹو اپنی بیٹی اور بیٹوں سمیت دفن ہے اس بات کا ثبوت بھی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کے لئے ایک سبق بھی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے اگر حقیقتاً سویلین بالادستی اور جمہوریت کی جنگ لڑنی ہے تو پھر انہیں جلد سے جلد وطن واپس آ کر قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا کہ یہ وہ واحد راستہ ہے جو مسلم لیگ نواز کی سیاست کی بقا کا باعث بن سکتا ہے۔

عمران اور شہباز میں سے کوئی بھی جیتے، فتح اسٹیبلشمنٹ کی ہوگی

بصورت دیگر شہباز شریف کی صدارت میں موجود مسلم لیگ نواز ہمیشہ کی مانند ایسٹبلشمنٹ کی “بی ٹیم” کا کردار ادا کرے گی۔ ایسٹبلشمنٹ ویسے بھی شہباز شریف بمقابلہ عمران خان کے انتخابی معرکے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی جیتے، جیت دراصل ایسٹبلشمنٹ کی ہونی ہے اور دونوں ہی ڈکٹیشن لے کر کام کرنے میں کوئی عار بھی نہیں سمجھتے۔ یہاں یہ بات بھی حل طلب ہے کہ کیا شہباز شریف موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنی جماعت کو مزید ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی خلفشار سے بچا پائیں گے؟ فی الحال شہباز شریف جس انداز میں اپنی جماعت کے ہی زیر عتاب لوگوں سے لاتعلقی اختیار کیے بیٹھے ہیں، اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید شہباز شریف کو مسلم لیگ نواز کی بقا میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن میں نواز شریف کا نام مسلم لیگ سے ہٹائے جانے کے خلاف سماعت چل رہی ہے اور جس مضحکہ خیز انداز سے عدالتوں سے مسلم لیگ نواز کے خلاف فیصلے کروائے جا رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن نواز شریف کا نام بھی شاید مسلم لیگ سے ہٹانے کا فیصلہ صادر فرما دے۔

کامران خان
میاں صاحب متواتر خلائی مخلوق کی بات کررہے ہیں آپکی اس پر کیا رائے ہے؟
شہباز شریف
میں کسی خلائی مخلوق پر یقین نہیں رکھتا
کیونکہ اسکا ذکر قرآن مجید میں موجود ہی نہیں جن چیزوں کا قرآن مجید میں ذکر نہیں اس پر میرا یقین نہیں
تالیاں
یے سیاست میں قرآن مجید کہاں سے آگیا??

— عروسہ سلمان (@Uroosa_Salman) June 30, 2018

شہباز شریف کی سیاست بھی عمران خان کی مانند  اطاعت اور فرمانبرداری ہے

یعنی مسلم لیگ نواز سے مسلم لیگ شہباز یا مسلم لیگ الف ب کچھ بھی نام رکھ دیا جائے۔ غالباً شہباز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ ووٹ پہلے نواز شریف کو تن تنہا پڑتا تھا اور اب یہ ووٹ مریم نواز کو پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ شہباز شریف اتنے کم عقل نہیں ہو سکتے کہ وہ یہ بنیادی نقطہ نہ سمجھتے ہوں۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود شہباز شریف کے پرو ایسٹبلشمنٹ بیانئے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی سیاست کا محور عمران خان ہی کی مانند عوام نہیں بلکہ پس پشت قوتوں کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔

2007 میں پیپلز پارٹی نے جب الیکشن میں حصہ لیا تو بی بی کی قبر کی مٹی ابھی گیلی ہی تھی

نواز شریف کو اب یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا انہیں یا مریم نواز کو مستقبل میں پاکستان کی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کرنا ہے؟ اور اگر وہ فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کی فوراً واپسی ناگزیر ہے۔ سیاست بے حد بے رحم ہوتی ہے اور یہ کسی بیماری یا انسانی مجبوریوں کو نہیں دیکھا کرتی۔ غالباً نواز شریف سے بہتر یہ بات کوئی نہیں جان سکتا کہ انہوں نے بینظیر کو اپنے باپ اور بھائیوں کی اموات کے باوجود سیاست کرتے دیکھا اور 2007 میں پیپلز پارٹی نے جب الیکشن میں حصہ لیا تو بی بی کی قبر کی مٹی ابھی گیلی ہی تھی۔

شہباز اور عمران ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں

شہباز شریف اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں پس پشت قوتوں کی بیساکھیوں کے محتاج ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز ایسے میں وطن واپس آنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں اس کا اثر آئندہ انتخابات کے نتائج پر بھی پڑے گا اور مسلم لیگ نواز کی سیاست اور بقا پر بھی اس فیصلے کے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن جمہوری بالادستی کے نظریے اور عوام کے اجتماعی شعور کو بزور طاقت رد کرنے والی قوتوں کے خلاف تقویت پاتے بیانیوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کہ نظریات کبھی بھی شخصیات کے محتاج نہیں ہوا کرتے بلکہ شخصیات کو نظریات کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ اور نہ ہی آگہی کے دریچوں پر قفل لگا کر شعور کا گلا گھونٹنے کی کوششیں کامیاب ہوا کرتی ہیں۔

Tags: imad zafarNaya Daurشہباز شریف اور عمران خان کا مقابلہعماد ظفرمریم نوازمسلم لیگ نوازنواز شریفنیا دور
Previous Post

پاکستان میں دائیں بازو کی متشدد جماعتوں کا عروج

Next Post

1999 میں حکومت کا تخت الٹنے کے وقت نواز شریف کس قوت کے خلاف بر سر پیکار تھے؟

عماد ظفر

عماد ظفر

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

Related Posts

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخی موڑ آ گیا۔ عمران خان کو لانے اور...

اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے ورنہ ملک ڈوب جائے گا

اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے ورنہ ملک ڈوب جائے گا

by رضا رومی
فروری 1, 2023
0

تحریک طالبان پاکستان کا پھر سے سر اٹھانا اور پاکستانی ریاست پر اس کے مسلسل حملے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے...

Load More
Next Post
1999 میں حکومت کا تخت الٹنے کے وقت نواز شریف کس قوت کے خلاف بر سر پیکار تھے؟

1999 میں حکومت کا تخت الٹنے کے وقت نواز شریف کس قوت کے خلاف بر سر پیکار تھے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
جنوری 31, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In