کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا

کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا
پاکستان میں ہر روز ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہے۔ کبھی خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں امیر زادے نے فلاں عورت کے ساتھ ریپ کر دیا فلاں وڈیرے نے فلاں غریب کو سرعام قتل کر دیا۔ اور یہ سارے واقعات چوری چھپے نہیں ہو رہے بلکہ سرعام ہزاروں گواہوں کے سامنے بلکہ ویڈیوز تک موجود ہوتی ہیں لیکن ان سب ثبوتوں اور گواہوں کے باوجود یہ درندے چند مہینوں بعد آزاد کیسے ہو جاتے ہے؟

یقینًا ہمارے ذہن میں پہلا سوال عدلیہ کا آتا ہے لیکن اکیلی عدلیہ ان سب کی قصور وار نہیں ہے۔ سب سے بڑا قصور تو ہمارے غیر مکمل اور کالے قانون کا ہے۔ ہمارا ملکی آئین خود چوروں اور لٹیروں کو آزادی دیتا ہے پھر عدلیہ کیسے سزا دے؟؟ آپ سب کو بلوچستان والا واقعہ یاد ہوگا جس میں ایک پولیس والے کو بلوچستان کے وڈیرے نے ڈیوٹی کے دوران گاڑی سے کچل دیا اور اس کیس کا سب سے اہم ثبوت وہ ویڈیو تھی جس میں صاف نظر آرہا تھا لیکن اس وڈیرے نے اس شہید پولیس والے کی فیملی کو ڈرا دھمکا کر دیت کا نام دے کر کیس معاف کروا لیا اور پکا ثبوت ہونے کے باوجود باعزت بری ہوگیا۔

اسی طرح کشمالہ طارق کے بیٹے والا کیس بھی یاد ہوگا جس میں کئی گھروں کے چراغ بجھا کر ان کو ڈرا دھمکا کر دیت دے کر کیس معاف کروا لیا ۔ یاد رکھیں اسلام نے دیت والی حد صرف اس کیلیے رکھی جس سے غلطی ہو جائے یا جھگڑے میں قتل ہو جائے، اسلام ہرگز کسی ظالم یا بدمعاش کی دیت قبول نہیں کرتا بلکہ اسے کڑی سے کڑی سزا دیتا ہے۔

لیکن ہمارے ملک میں سسٹم الٹا ہے یہاں پر ہر امیر اور بدمعاش کی دیت قبول کر لی جاتی ہے جو کہ ہمارے قانون میں شامل ہے۔ اب آپ خود بتائیں یہاں پر عدلیہ کیا کرے؟ جب قانون خود راستہ دے رہا ہو۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے ججز بہت پارسا ہیں یقینًا بہت سے ججز کرپٹ بھی ہیں جو بڑی بڑی پارٹیوں سے پیسے لے کر فیصلہ کرتے ہیں لیکن وہ ججز بھی قانون کا استعمال کر کے ہی ظالموں کو رہا کرتے ہیں اس لیے آج تک کسی جج کو کوئی افف تک نہیں کر سکا کیونکہ سارا پراسس قانون کے مطابق ہوتا ہے۔  اگر ہمیں ملک میں ظلم اور نا انصافی کو ختم کرنا ہے تو ہنگامی بنیادوں پر قانونی ریفارمز کرنا ہوں گی اور سخت شقیں شامل کرنی ہونگی تاکہ ہر ظالم اور چور کو کڑی سے کڑی سزا ہوسکے اور پھر کوئی جج چاہ کر بھی دونمبری نہیں کر سکے گا اگر کرے گا تو پکڑا جائے گا۔

انصاف کسی بھی معاشرے کیلیے سب سے اہم جز ہے۔ نبی کریمؐ نے گزشتہ اقوام کی تباہی کا یہی سبب بتایا کہ وہ لوگ غریب کو سزا دیتے تھے اور امیر کو چھوڑ دیے تھے جیسا آجکل ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔

امام علیؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن نا انصافی کا نظام کبھی نہیں چل سکتا اور یہی پاکستان کی پستی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔اگر پاکستان کو بہترین ملک بنانا ہے تو سب سے پہلے نئے قانون بنائے جائیں اور ہر قانون کو مکمل سٹڈی کے بعد پاس کیا جائے تاکہ کسی قسم کی جھول باقی نہ رہے پھر ان شا اللہ جلد ہمارا ملک عظیم اقوام میں شامل ہوگا۔

 

کالم نگار، فری لانس جرنلسٹ اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں۔ ٹویٹر اکاونٹ: @Farhan_Speaks_