واٹر کولر یا قربانی؟: 'کیا وقت کے مطابق مجتہدین کو دین کی تشریحات دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟'

واٹر کولر یا قربانی؟: 'کیا وقت کے مطابق مجتہدین کو دین کی تشریحات دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟'
پاکستان میں گذشتہ صدی کی آخری ڈیڑھ سے دو دہائیوں میں آنکھ کھولنے والی نسل آج کل عجیب مخمصے میں ہے۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک کے تمام معاملات تقریباً درست انداز میں چلتے رہے۔ انہیں جو بتایا گیا، اس کے خلاف ان تک کچھ بھی نہ پہنچا۔ مثلاً مجاہد اور جہاد کا تصور جو دیا گیا تھا اس کے سوا کوئی دلیل ان تک نہ پہنچی۔ اسی طرح بین الاقوامی طاغوت کی تعریف میں بھی امریکہ، اسرائیل اور بھارت فٹ رہے۔ حتیٰ کہ یہود و ہنود کی تعریف بھی وہی رہیں جو انہیں تعمیر شعور کے ابتدائی دنوں سے ملی تھی۔
پھر ملک کی سیاست میں تبدیلی آ گئی۔ اور یک شعوری شاہراہ پر حادثے ہونے لگے۔ انتہا پسند سوچوں پر مبنی سیاسی ماحول میں روشن خیالی کی پھوار پڑنی شروع ہوئی۔ انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک سکرین میں بند کر دیا۔ یوں فکری محاذوں پر ایک لا متناہی لڑائی شروع ہوئی جو کہ روز کسی نہ کسی شکل میں ہماری زندگیوں کی عام بحثوں میں جگہ بناتی ہے۔ خاص کر جب یہ مسائل مذہبی نوعیت کی معاشرتی روایتوں سے متعلق ہوں۔ اب عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی ایک ایسی ہی بحث نے جنم لیا ہے اور عید کہیں پیچھے رہ گئی ہے جب کہ اس بحث کا ایک حتمی نتیجہ مسلمانانِ پاکستان کے سر پر سوار ہے۔
بحث کچھ یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک شخص کی جانب سے قربانی کا متبادل نیک کام ڈھونڈنے اور بتانے کی کوشش کی گئی اور اس کی پوسٹ کے مطابق وہ اس بار قربانی کے لئے مختص رقم کی جگہ پر ایک واٹر کولر عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جس کے بعد سے اس کے حق اور مخالفت میں دونوں کیمپس صف آر ا ہو گئے اور دلائل کی گولہ باری شروع۔ یہ گولہ باری دلائل تک ہی محدود رہتی تو ٹھیک تھی لیکن اب اس میں کفریہ فتووں کے کیمیکل ہتھیاروں نے بھی جگہ بنا لی ہے۔ اور تو اور، یہ بھی کہ اس وقت علمائے زمانہ بھی اس بحث میں برابر کے شریک ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ تو شوقیہ جب کہ کچھ کے سامنے سوال رکھے جانے کی صورت میں وہ رائے زن ہوئے ہیں۔
ایک جانب عوام کے رجعت پسند طبقے کی جانب سے اس تمام تر بحث کو اسلامی عقائد کے خلاف عالمی سازش کا سلسلہ قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب علما نے بھی اس حوالے سے احادیث و سنت صحابہ سے دلائل پیش کیے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ علما مختلف مکاتب فکر سے تعلق کے باوجود اس پر تو متفق ہیں کہ قربانی کا نعم البدل کچھ نہیں ہو سکتا تو دوسری جانب قربانی کی شرعی حیثیت پر وہ متفق نہیں ہیں۔
مثلاً غامدی صاحب کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا تو انہوں نے واضح کیا کہ قربانی کی اپنی بطور عبادت فضیلت ہے۔ واٹر کولر لگوانا اپنے تئیں ایک نیکی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا بدل نہیں ہو سکتیں۔
پھر سوشل میڈیا سٹار مفتی طارق صاحب کے آگے یہ مسئلہ پیش کیا گیا اور حوالہ بھی دیا گیا۔ جب ایک بہت ہی جید تابعی نے بھوکے کو چند اشرفیاں دینے کو قربانی سے افضل قرار دیا تو انہوں نے جواباً انہی تابعی کی روایت کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے قربانی کے روز ایک بکری ذبح کرنے کو بڑی رقم صدقہ کرنے پر افضل قرار دیا۔
تاہم، مقبول سکالر انجینئر محمد علی مرزا کے مطابق تو قربانی واجب ہی نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ انہوں نے پہلے دو خلفا راشدین حضرت ابوبکر رضی اللہ اور حضرت عمر رضی اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں استطاعت کے باوجود بھی قربانی چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اسے واجب نہ سمجھ لیا جائے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اب بدلتی ہوئی دنیا میں جہاں انسان شعوری ارتقا کی نئی راہوں پر گامزن ہے وہاں اس جیسے سوالات انسانی ذہن لازمی اٹھائیں گے۔ انسانی سرشت کو مد نظر رکھتے ہوئے اور خاص کر یورپی نشاۃ ثانیہ کی تاریخ کو مد نظر رکھیں تو مذہب، پھر وہ چاہے کوئی بھی مذہب ہو، اسے اس قسم کے سوالات اور بحثوں کا سامنا رہے گا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی شارحین ان کو سختی اور غیر منطقی انداز میں رد کرنے کی بجائے انہیں مذہبی اساس کے ساتھ incorporate کرنے کا انتظام کریں۔ ایسے میں مذہب کی جدید تشریحات کی ضرورت ہوگی جس کو جدید انسان اپنی روحانی ضروریات کا نمائندہ مذہبی نظریہ سمجھے وگرنہ انسانی زندگی کو آگے بڑھنا ہے۔ جو معاشرتی، تمدنی، معاشی، سیاسی و قانونی پہلو زندگی کی دقیانوسی بیڑیوں سے اس آگے کے سفر کو لگام دینا چاہیں گے، تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ اب بڑھتے ہوئے شہر، سکڑتا ہوا جدید رہائشی طرز تعمیر، نئی نسل کا غیر یقینی پن، دباؤ کا شکار معاشی حالات، تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا خاندانی نظام اور سب سے بڑھ کر وقت کی قلت، قربانی کی پوری رسم ذبیحہ کو شاید برداشت کرنے کے قابل نہ رہے۔ ایسے میں کامیاب وہی مذہبی نظریہ ہوگا جو واٹر کولر (بطور استعارہ) کو ذبیحہ سے جوڑنے کا خوبصورت بند و بست کر سکے۔