افغان مسئلے کی جڑ اعتماد کا فقدان ہے

افغان مسئلے کی جڑ اعتماد کا فقدان ہے
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے پرویزمشرف کی حکومت سے افغانستان میں موجود القائدہ کے خلاف جنگ میں تعاون مانگا تو مشرف حکومت نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا یاد رہے کہ امریکہ کی اصل جنگ طالبان سے نہیں بلکہ افغانستان میں موجود القائدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف تھی۔ طالبان کے ساتھ تو جنگ صرف اس لئے کرنا پڑی کیونکہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا اور دنیا کو یہ بھی یقین دہانی کروانے میں ناکام رہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہورہی اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔

مشرف حکومت کے افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے فیصلے کے بہت دورس نتائج سامنے آئےاس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان نے امریکہ کو ایئر بیسس فراہم کئے۔ دونوں ممالک کے درمیان طالبان اور القائدہ کے خلاف خفیہ معلومات کا تبادلہ ہوا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن اور امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے بھی کئے گئے ان آپریشنز کے نتیجے میں تحریک طالبان افغان و پاکستان کی جانب سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں خود کش حملے اور پلانٹڈ بم دھماکے کئے گئے جس کے نتیجے میں ہزاروں سویلین اور سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کی پاکستان کے خلاف حملوں کے لئے پاک افغان طالبان کو بھارت کی پشت پناہی بھی اس اصول کے تحت حاصل تھی کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کا اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کی وجہ سے طالبان کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے خلاف ہوچکاتھا اسی طرح بھارت نے ایک جانب افغان حکومت کو سپورٹ کیا تو دوسری طرف طالبان کو پاکستان کے خلاف حملوں میں مدد بھی فراہم کی۔

نائن الیون کے بعد سے آج امریکی انخلا تک اگر اس پورے عرصے کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان پایہ جاتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے بظاہر اتحادی نظر آتے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ باطنی طور پر اس کے برعکس عمل کرتے ہیں۔ یہی اعتماد کا فقدان پاکستان اور افغانستان ، بھارت اور پاکستان اور بھارت اور افغانستان کے درمیان بھی نظر آتا ہے۔

مشرف حکومت نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو مشرف رجیم کے لئے ایک مجبوری تو یہ تھی کہ ملک میں مارشل لا نافذ تھا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے امریکہ کی سپورٹ لازم درکار تھی اگر مشرف امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو امریکہ اور یورپ مل کر پاکستان پر باآسانی سخت قسم کی پابندیاں عائد کردیتے جس کے بعد معاشی بدحالی کی وجہ سے مشرف حکومت برقرار نہ رہ پاتی۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اگر پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوجاتا اور بھارت پوری دنیا کی آنکھوں کاتارہ بن جاتا جو پاکستان کی مقتدرہ کو کسی صورت قبول نہیں ہوتا لیکن بات صرف اتنی ہے کہ ملک کی داخلی سیاسی صورت حال جو کہ پرویز مشرف کی خود پیدا کردہ تھی اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی شدید خواہش کی وجہ سے مشرف رجیم میں امریکہ کا دباؤ سہنے کی سکت ہی موجود نہیں تھی نہ ہی وہ اس پوزیشن میں تھے کہ بدلے میں امریکہ سے پاکستان کے لئے کوئی بہتر ڈیل کرپاتے اس بات کو امریکی حکام بھی خوب سمجھتے تھے اس لئے جتنی عجلت میں امریکی صدر بش نے تعاون مانگا نما دھمکی دی اس سے کہیں زیادہ عجلت میں مشرف نے تعاون کی حامی بھرلی۔ کہا جاتا ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا کام ہوتا ہے اور ایسا نظر بھی آیا۔

جیسے جیسے امریکہ افغانستان پر قابض ہوتا گیا افغانستان میں بھارت کا اثر ورسوخ بڑھتا گیا اور مزید یہ کہ چاہے حامد کرزئی کی حکومت ہو یا اشرف غنی کی دونوں حکومتوں نے بھارت کی زبان بولی صرف اس وجہ سے کہ بھارت چند ٹکوں کی سرمایہ کاری کررہا تھا اور پھر یہ کہ پاکستان کا ماضی میں افغان ترقی پسندوں کے مقابلے میں طالبان کو سپورٹ کرنے کا بدلہ لینے کی خاطر افغان حکومتوں نے بھارت کو افغان سرزمین سے پاکستان میں سازشیں کرنےکی کھلی چھٹی دیئے رکھی اور پھر پاکستان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت کو سپورٹ کرے گا جو افغان سرزمین پر پاکستان کے دشمنوں کو پالے گی اور ان ہی کی زبان بولے گی ایسا ممکن نہیں۔

افغان حکومتوں کو چاہیے یہ تھا کہ پاکستان کے ساتھ اعتماد سازی کی فضا کو قائم کرنے کے لئے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگے بڑھتے اور پاکستانی مقتدرہ بھی خلوص نیت کے ساتھ افغان حکومت کی جائز شکایات کا ازالہ کرتی اور یہ اسی وقت ممکن ہوتا جب امریکہ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نیوٹرل ایمپائر کا رول ادا کرتا لیکن افسوس امریکہ کی یہ خواہش ہی اس پر غالب رہی کہ کسی طرح بھارت کو ایشیا کا چوہدری بنادیا جائے اور خطے میں پاکستان اور چین کے مقابلے میں بھارت بنگلہ دیش افغانستان اور دیگر ممالک کو شامل کرکے چین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ امریکہ نے اپنی اس خواہش کی وجہ سے افغانستان میں بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں کو جانتے ہوئے بھی نظرانداز کئے رکھا اور اقوام متحدہ اور فیٹف سمیت دنیا کے ہر فورم پر امریکہ اور یورپ نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازشیں کیں اور اس کے بعد پھر پاکستان سے یہ توقع رکھی گئی کے وہ افغانستان میں طالبان کو اقتدار پر قبضے سے روکے گا، محض دیوانے کا خواب ہے۔

پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا لیکن پاکستان میں ایک خدشہ ہمیشہ سے موجود تھا کہ امریکہ نے ایک دن اسی طرح عجلت میں افغانستان سے نکل جانا ہے جس کے بعد پھر دوبارہ طالبان کابل پر قابض ہوجائیں گے اسی لئے پاکستان نے امریکہ کا ساتھ تودیا مگر واپسی کی کشتیاں نہیں جلائیں جبکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو اس کا ادراک شاید نہیں تھا یا وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات اور چند ٹکوں کی امریکی اور بھارتی امداد کی خاطر دشمنوں کی زبان بول کر افغانستان کے امن کو بیچتے رہے۔ تمام فریقین میں اعتماد کا فقدان بڑھتا گیا اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان پر اعتماد نہیں، پاکستان کو بھارت اور امریکہ پر اعتماد نہیں، افغانستان کو پاکستان پر اعتماد نہیں اور پاکستان کو افغانستان پر اعتماد نہیں اور طالبان کو کسی پر اعتماد نہیں اور کسی کو بھی طالبان پر اعتماد نہیں، اعتماد کا یہ فقدان خطے اور دنیا کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

پاکستان میں کچھ حلقوں کا نقطہ نظر یہ بھی رہا ہے کہ افغانستان میں کوئی جو مرضی کرے ہمیں اپنا گھر صاف رکھنا چاہیے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا چاہیے اپنے ملک میں انٹیلیجنس نیٹ ورک کو مزید مضبوط بنانا چاہیے تاکہ کسی بھی بیرونی طاقت کو ہمارے ملک میں مداخلت کرنے کی جرات نہ ہوسکے اور نہ ہی کسی عالمی فورم پر ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس نقطہ نظر کو فی الحال زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔

امریکہ کو ایک بات واضح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان کا دشمن نمبر ایک بھارت ہے۔ پاکستانی عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر اسی بھارت کے خلاف ہی اپنی فوجی طاقت بنائی ہے۔ پاکستان سے کسی ایسے کام میں تعاون کی توقع نہیں کرنی چاہیے کہ جس کے نتیجے میں بھارت کو ایسا فائدہ پہنچے جس کے ذریعے وہ پاکستان کے اندر سازشیں کرسکے اور ایسا کبھی ہو نہیں سکتا کہ ہم بھارت کو خطے کا چوہدری مان لیں ہاں لیکن اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو ایک بڑے ملک کی حیثیت سے بھارت کو خطے میں اس کا جائز مقام مل سکتا ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی سپر پاور ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی۔ ہر عروج کو ایک دن زوال ضرور آتا یہ فیصلہ انسان کے ہاتھ میں ضرور ہوتا ہے کہ وہ اس قدرتی تبدیلی کو دانشمندی سے قبول کرتا ہے یا اپنے عروج کو قائم رکھنے کے لئے فساد برپا کرتا ہے اور ایک دن اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل جاتا ہے آج اگر چین ترقی کررہا ہے تو بجائے اس کی راہ میں ناجائز طریقوں سے روڑے اٹکانے کے امریکہ کو چاہیے کہ وہ اس قدرتی تبدیلی کو دانشمندی سے قبول کرے ورنہ اس خطے میں ایسی تباہی بھی آسکتی ہے جس سے اٹھنے والا دھواں ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔