ڈپریشن یا نفسیاتی بیماریاں کیوں بڑھ رہی ہیں؟

ڈپریشن یا نفسیاتی بیماریاں کیوں بڑھ رہی ہیں؟
آج اس موضو ع کے حوالے سے اپنا ہی ایک پرانا شعر یاد آیا ہے کہ؎

ہر طرف ہے نفسا نفسی کا یہ حال

 کہ اپنے ہی سائے کو یہاں ڈھونڈنا ہے محال

آج کا انسان اس قدر اکیلے پن کا شکار ہے کہ وہ دوسروں سے کیا خود سے بھی بیزار ہے۔ یعنی آج کے دور میں جدت کے نام پر انسان اس قدر تقسیم ہوگیا ہے کہ وہ زندگی کی کئی خوبصورتیوں کو ہی بھول گیا، نہ رشتوں کی قدر نہ وہ دوستوں کی محفلیں بلکہ اب تو انسان ایک عجیب کیفیت کا غلام بن کے رہ گیا ہے جہاں پر یہ ساری چیزیں اس کے لیے بے معنی ہوچکی ہیں اور ہر کوئی زندگی کی ریس میں اندھوں کی تقلید کئے بیٹھا ہے اور یہی دوڑ نئی نسل کو وراثتاً ملی ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوان نسل تباہی کے دھانے پر ہے۔ وہ معاشرے میں تنہائی کا شکار ہے، اس کے سامنے بہت چیلنجز ہیں جن کا سامنا کرنے سے وہ اس قدر خوف زدہ ہے کہ  اکیلے پن، ذہنی دباؤ، مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر رہ گیا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب سے ہمارے معاشرے میں مغربی  کلچر کو روشناس کرایا گیا تب سے ہمارا خاندانی سسٹم تباہ وبرباد ہوکر رہ گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی سے ہم مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے اور خدا جانے یہ معاملہ مزید کس قدر سنگینی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ مغرب  میں تو ڈپریشن کی وجہ سے خودکشی کرنا عام سی بات ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ مل جل کر رہا جائے ایک دوسرے سے شفقت کا رویہ رکھا جائے۔ معافی اور درگزر کا راستہ اپنایا جائے دوستوں کے پاس بیٹھ کر اپنے مسائل پر تبصرہ کرنا اور خدا تعالیٰ پر یقین کامل رکھنا بے شک وہی  مشکل کشا ہے۔ میڈیکل میں اگر کوئی بندہ چند دنوں سے زیادہ مایوسی یا پریشانی جیسی کیفیت کا شکار ہو تو یہ ڈپریشن کہلاتا ہے۔

نفسیاتی مسائل کیسے پیدا ہوتے ہیں؟

انسانی جسم میں مختلف کیمیائی عمل ہوتے رہتے ہیں جب ان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو مختلف قسم کی علامات جنم لیتی ہیں۔ اسی طرح دماغ میں مختلف اعصابی خلیے ڈوپامین، سیروٹونن، آکسیٹوسین جیسی کیمیائی مادے پیدا کرتی ہیں جب یہی کیمیائی مادے متوازن مقدار میں بنتے ہیں تو انسانی جسم میں خوشی، راحت وسکون پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں لیکن جب کسی بیماری یا کسی اور مسئلے کی وجہ سے ان مادوں کی پیدائش میں نقص آتا ہے تو انسان مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے یعنی کہ مایوسی، اُداسی، زندگی سے بیزاری، ڈپریشن وغیرہ وغیرہ۔ یہاں پر ایک بیماری قابل ذکر ہے جس کا نام ہسٹیریا ہے اکثر خواتین اس کا شکار رہتی ہیں لیکن ہمارے یہاں بھوت پریت سمجھ کر تعویذ گنڈے کئے جاتے ہیں یا مریض کو نشہ آور ادویات کا استعمال کرواکر مذید اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے جبکہ اگر اس بیماری کی خاص وجہ معلوم کی جائے جیسے کہ یوٹرس کے مسائل، یا کوئی خوف، پریشانی یا اداسی، یادیگر میڈیکل کنڈیشنز ہوسکتی ہیں اگر اس کا پتا لگایا جائے تو ہومیوپیتھک ادویات سے یہ بیماری مکمل طور پر ٹھیک ہوجاتی ہے  لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں لوگ وقتی طور پر نشہ آور یا خواب آور ادویات کا سہارا لیتے ہیں جس سے دماغ میں موجودہ کیمیائی مادے مزید بگاڑ کا شکار ہوکر نت نئی بیماریاں پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں۔

بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟

بائی پولر ڈس آرڈر ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں مسلسل مایوسی یا اُداسی کے بعد مریض کا موڈ مسلسل بدلتا رہتا ہے، اس کے کام کاج، رویے، کام، سوچ، نیند وغیرہ میں مسلسل بدلاؤ رہتاہے یعنی کی ایک پل میں خوش تو اگلے پل مایوس یا اداسی کا شکار ہوجائے گا۔

ڈپریشن کی وجوہات؟

میڈیکل سائنس یہی کہتی ہے کہ دماغ میں چند مادوں کی غیر متوازن پیدائش کی وجہ سے مختلف قسم کی ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں لیکن ایسا ہوتا کیوں ہے یعنی کہ یہ مادے متوازن کیوں پیدا نہیں ہوتے اس کے پیچھے بہت سارے عوامل کار فرما ہوتے ہیں یعنی کہ ایک انسان میں اداسی، مایوسی،زندگی سے بیزاری، کام میں دل نہ لگتا، بھوک کا نہ لگنا، اپنے پرائے کی پہچان نہ ہونا، لوگوں سے نفرت، تنہائی پسند وغیرہ وغیرہ یہ سب علامات کیوں پیدا ہوئیں؟ جب تک ان مسائل کی وجوہات تک نہیں پہنچا جاتا تب تک کوئی بھی نفسیاتی مریض ٹھیک نہیں ہوسکتا، ڈپریشن کی وجوہات میں زندگی کی بے شمار تلخ لمحے شمار کئے جاسکتے ہیں جن کی وجہ سے انسان اداسی، مایوسی اور آخرکار ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ وقتی خواب آور ادویات سے یہ مسائل بڑھ سکتے ہیں بلکہ مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔

کیا ڈپریشن موروثی بھی ہوسکتا ہے؟

جی بالکل ڈپریشن موروثی بھی ہوسکتا ہے یعنی جن خاندانوں کے اندر ڈپریشن کی بیماری پائی جاتی ہے یا موروثی ہے ان کے ہاں بچوں میں بھی یہ مرض ہوسکتا ہے یعنی کہ ان میں بلا وجہ اداسی اور مایوسی جیسی کیفیات کا ہونا بنتا ہے۔عام لوگوں کی نسبت ان لوگوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ آٹھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ موروثی ڈپریشن یا جنیاتی خرابی پر ہومیوپیتھک ادویات بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ کیونکہ جینیاتی خرابی یا میازم کو ہومیوپیتھی میں بہت اہمیت دی جاتی ہے اور اس ٹاپک پر ہومیوپیتھی میں آج سے دو صدی پہلے کام شروع ہوا تھا۔

ڈپریشن کی وجہ معلوم کریں؟

اگر آپ ایک عرصے سے اداسی اور مایوسی کے شکار ہیں تو سب سے پہلے آپ کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ  اس کے پیچھے معاملہ کیا ہے یعنی محبت میں ناکامی، کسی عزیز کی موت، کوئی صدمہ، کاروبار میں نقصان، پڑھائی کی پریشانی، مستقبل کی پریشانی؟ یعنی  کس وجہ سے آپ پریشان ہیں اگر آپ کو یہ اندازہ ہوجاتا ہے تو آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ہر مسئلے کا حل ایک ہی قسم کی نشہ آور یا خواب آور ادویات نہیں ہوسکتی۔

ڈپریشن کا علاج کیسے کیا جائے؟

ہمارے یہاں نفسیاتی بیماریوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور اکثر مریض اسی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس حوالے سے ہمارے ہاں آگاہی کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر لوگ انٹی ڈپریسنٹ ادویات کا استعمال کرتے ہیں یعنی کہ وقتی خواب آور یا سکون آور ادویات اس کے علاوہ سائیکوتھراپی کے ذریعے بھی علاج کیا جاتا ہے جس میں مریض کوباتوں کے ذریعے ٹھیک کیا جاتا ہے یعنی کہ کونسلنگ کے ذریعے، کسی حد تک یہ طریقہ اچھا بھی ہے کیونکہ اس کے نقصانات  نہیں ہوتے اس کے برعکس اگر ہم انٹی ڈیپریسنٹ ادویات کو دیکھتے ہیں تو ایک تو ان کے نقصانات بہت زیادہ ہیں اس کے علاوہ ہمارے ہاں زیادہ تر خودساختہ علاج کرتے ہیں اور اس طرح مریض مزید مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

ڈپریشن میں ہومیوپیتھک ادویات؟

اکثر اوقات کچھ لوگ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا ڈپریشن جیسی اذیت ناک بیماری میں ہومیوپیتھک ادویات استعمال کروائی جاسکتی ہیں یا کوئی فائدہ بھی ہوسکتا ہے؟ میں یہاں پر بتاتا چلوں کہ نفسیات پر ہومیوپیتھی سے زیادہ کوئی دوسری سائنس بات ہی نہیں کرتی بلکہ صرف بات ہی نہیں نفسیاتی مسائل کا مکمل طور پر حل بھی سامنے رکھتی ہے اس کی خاص وجہ ہی یہی ہے کہ ہومیوپیتھک میڈیکل سسٹم میں ادویات کی پروونگ انسانوں پر کی جاتی ہیں اور پروونگ کے دوران نا صرف جسمانی علامات کو نوٹ کیا جاتا ہے بلکہ ذہنی کیفیات کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور ذہنی علامات کو ایک خاص اہمیت دی جاتی ہیں۔ بلکہ دنیا بھر میں بہت سارے ڈاکٹر مائنڈ سیمپٹس یعنی ذہنی علامات کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ وہ اسی پیٹرن پر پریکٹس کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ جب تک مریض کی سوچ مثبت نہیں ہوجاتی یعنی کہ ہر طرح کی ذہنی کیفیات سے آزاد نہیں ہوجاتا تب تک وہ صحت مند زندگی نہیں گزار سکتا۔

لہٰذا یہ بات ماننا پڑے گی کہ نفسیات پر ہومیوپیتھی سے زیادہ کوئی دوسری سائنس کام نہیں کررہی لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے حکومتی سطع پر ہومیوپیتھی ہسپتال، ریسرچ سنٹرز اور یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے لوگوں تک اس کی افادیت کا اندازہ نہیں کہ ہومیوپیتھک ادویات کس قدر گہرائی میں نفسیات کو ڈسکس کرتی ہیں یعنی کہ اگر ایک مریض کو محبت میں ناکامی کی وجہ سے ڈپریشن ہے تو اس کے لیے ایک بہترین گروپ آف میڈیسن موجود ہیں،اسی طرح غم وغصہ، کوئی صدمہ، کاروبارمیں نقصان، پڑھائی یا مستقبل کی پریشانی، ہسٹریا، مرگی، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، پاگل پن، جھٹکے وغیرہ وغیرہ یعنی جتنی بھی نفسیاتی بیماریاں ہیں ان تمام کی وجوہات کو دور کرنے کی مکمل میڈیسن موجود ہیں،نا کہ صرف وقتی طور پر آرام دہ ادویات،

اب آپ خود سوچیں کہ اتنی وجوہات کی بناء پر دماغ میں کیمیائی مادوں میں خلل سامنے آتا ہے تو کیا وہ چند نشہ آور یا خواب آور ادویات سے دور ہوسکتے ہیں؟ کیا یہیں اس کا حل ہے یا جس وجہ سے یہ حلل سامنے آیا ہے اس وجہ کو دور کرنا ہوگا۔