غلام حسین، رنجیت، اسماعیل اور بلو کی کہانی؛ وہ آزادی تھی یا بٹوارہ؟

غلام حسین، رنجیت، اسماعیل اور بلو کی کہانی؛ وہ آزادی تھی یا بٹوارہ؟
غلا م حسین، کیکر کے درخت کے نیچے پڑ ی چارپائی پر بیٹھا تھو تھو کر رہا تھا کہ اچانک سامنے والی سڑ ک پر ایک ٹر ک تیز ی سے گزرا تو اس کے ذہن میں خیالا ت کا ایک ایسا ریلہ آیا جو اسے کسی بہت پیچھے ایک زمانے میں لے گیا۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی اس کا سر تکیے پرجا لگا اور وہ آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ خیال اور خواب کی مشترکہ سازش تھی یا عمر کا تقاضا تھا، غلام حسین روشن پور کی گلیو ں میں جا پہنچا جہاں وہ رنجیت، بلو،اور شاید تیسرے کا نام اسماعیل تھا کے ساتھ اس وقت گلی ڈنڈہ کھیلتا تھا، تینوں غلام حسین کے ہم عمر اور ہم جماعت تھے ،سکو ل کی جماعت میں اس کے آگے بلو بیٹھتا تھا اور پاس بیٹھے رنجیت کے لیے تو غلام حسین کی قلم دوات یا کتاب چر انا معمو ل کی بات تھی۔

پھرغلام حسین اپنے استا د کلد یپ سنگھ کو شکا یت لگا کر رنجیت کو مار پڑواتا تھا تورنجیت سکو ل کے باہر اس سے نمٹنے کا اشارہ کر نا نہ بھو لتا، لیکن سکول کی چھٹی کے بعد رنجیت کو بدلہ لینے کی کبھی نو بت ہی نہ آتی۔ اکثر گر میوں میں سکو ل کی چھٹی کے بعد یہ تینوں اسماعیل کے گھر سے دیسی گھی سے چو پڑ ی روٹیاں چرانے کی منصو بہ بند ی سکو ل میں ہی کرتے، جب یہ چھٹی کے بعد اسما عیل کے گھرپہنچتے ہیں تو سارے گھر والے حویلی میں ایک چھپر تلے سویا ہوا پاتے، جبکہ دیسی گھی سے چو پڑ ی روٹیاں تو گھر کے اکلوتے کمر ے میں پرات کے نیچے پڑ ی ہوتی۔

منصو بہ بند ی کے مطابق رنجیت مرغا بنتا ہے جبکہ غلا م حسین اس کے اوپر چڑھ کر لکڑ ی کے دورازے پر لگی لو ہے کی کنڈی کھولتا، جبکہ بلو دیوار کے کونے پر کھڑے ہوکر نگرانی کے فرائض سر انجام دینا ہو تا تھا۔ اسی اثنا میں کنڈی تو کھل ہی جاتی، لیکن ساتھ ہی اسماعیل کی ماں کی آنکھ بھی کھل جاتی اور پھر تھو ڑی دیر بعد وہ ان تینوں کو بٹھا کر دیسی گھی سے چو پڑی روٹیاں اور لسی کا جگ آگے رکھ رہی ہوتی۔

ایک دن غلا م حسین ڈرتے ڈرتے سکو ل گیا کیو نکہ اس دن رنجیت نے اس کی شکایت لگانا تھی کہ شام کو غلا م حسین نے اس کو مارا تھا۔ پھر وہی ہوارنجیت نے تو استا د کو شکا یت لگا ئی لیکن خلاف معمو ل استا د غلام حسین کو بلا کر پوچھنے اور سز ا دینے کے بجائے رنجیت کی شکا یت سن کر خامو ش ہو گیا۔ اگلے پور ے دس دن استاد مارنے اور پڑ ھا نے کے بجا ئے سارا دن چپ چاپ بیٹھا رہتا۔ گاؤں کی گلیو ں میں دن کے وقت بھی رات کی خامو شی سی چھا ئی رہتی تھی۔ رات کو غلام حسین کے والد نے رنجیت کے ڈیرے پر جانا چھو ڑ دیا تھا، ایک دن غلام حسین گھر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ما ں سامان سمیٹ رہی ہے اور اس کی بہن بھی ماں کے ساتھ پریشان بیٹھی ہے۔ غلام حسین ماں سے پوچھتا ہے کہ کیا ہم دلی درگاہ جارہے ہیں ماں کہتی ہے نہیں ہم اپنے وطن جارہے ہیں۔ غلام حسین کہتا ہے کہ ہمارا وطن یہی نہیں تو اور کہاں ہے غلام حسین کی ماں چپ ہو گئی۔ اس دن شام کو رنجیت اور ٹلو کھلینے نہیں آئے، غلام حسین ماں سے پو چھتا ہے تو ماں اسے کہتی ہے کہ آج تم نے بھی اس کے گھر نہیں جانا۔غلام حسین کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

پھر اسی دن رات کو گاؤ ں سے غلام حسین اور اسماعیل کے گھر والے سامان اٹھا کر چل پڑتے ہیں، غلام حسین پید ل چل چل کے تھک گیا، رات ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ جنگلوں، قصبوں، سڑ کوں اور ویرانو ں سے گزرتے ہوئے ان کا قافلہ صبح ہو نے سے ذرا دیر پہلے تھو ڑی دیرکے لیے آرام کر نے کی غر ض بیٹھ گیا اور غلام حسین کو نیند آگئی۔

اچانک غلام حسین کی آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ ماں کے کپڑ ے پھٹے اور پیٹ پر چھر ی چھبی ہو ئی ہے اور بہت سارا خو ن بہہ رہا ہے، ابھی غلام حسین یہ سب حیر انگی سے دیکھ ہی رہا ہو تا ہے کہ غلام حسین کے باپ نے اسے کاندھے پر اٹھا یا اور پھر بھا گنا شروع کر دیا۔ غلام حسین نے پیچھے دیکھا تو تین لو گ کلہاڑیا ں اور ڈنڈے لیے پیچھے آرہے ہو تے ہیں، غلام حسین اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ باجی کو ثر کہا ں ہے اس کا با پ اسے چپ رہنے کا اشارہ کر تا ہے۔ غلام حسین کا باپ بھاگتے بھاگتے ایک سڑ ک پر پہنچ جا تا ہے۔ دونوں سڑ ک پرچل رہے ہوتے ہیں کہ ایک ٹر ک آکر ان کے پا س رکتا ہے اور وہ ٹر ک پر چڑ ھ جاتے ہیں۔ ٹر ک سڑ ک پر تیز ی سے دوڑتا رہا۔

اچانک دادا دادا کی پکا ر سن کر غلام حسین کی انکھ کھل جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ اس کا پو تا وقا ص ایک سبز رنگ کا جھنڈ ا اٹھا ئے اس کی چارپائی کے پاس کھڑ ا کہہ رہا ہو تا ہے کہ دادا جان آزاد ی مبارک، دادا جان آزادی مبارک۔۔!