معاشرہ بے حیائی سے نہیں منافقت سے تباہ ہوتا ہے

معاشرہ بے حیائی سے نہیں منافقت سے تباہ ہوتا ہے
گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر تماشا دیکھ رہا ہوں کہ مینار پاکستان پر جو ہوا اس میں سارا ڈرامہ اس لڑکی نے خود کیا، وہ ٹک ٹاکر تھی، فحاشی پھیلاتی تھی، اور یہ سارا کچھ اس نے مشہور ہونے کے لیے کیا۔

ایسی خرافات بکنے والوں سے میرے چند سوالات ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کون سی لڑکی اپنے کپڑے پھاڑ کر اور اپنی عزت تار تار کرکے شہرت پانا چاہے گی؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ لڑکی خود لڑکوں کے ساتھ فری ہوئی لیکن یوم آزادی پر مینار پاکستان میں موجود ان تمام مردوں کو یہ لائسنس کس نے دیا کہ وہ خاتون کے ساتھ جو چاہیں کریں، یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس نے کوئی بے حیا لباس نہیں پہنا بلکہ وہی لباس پہنا جو ہمارے معاشرے میں قومی لباس تصور کیا جاتا ہے۔

ٹک ٹاکرز اور دیگر ویڈیوز کو برا بھلا کہنے والے، اسے فحاشی کی جڑ قرار دینے والے اور ویکٹم بلیمنگ کرنے والے ان نا مراد مردوں سے دوسرا سوال یہ ہے کہ بتائیں کہ ان ویڈیوز کو دیکھتا کون؟ انہیں مشہور کون کرتا ہے؟ مطلب ان ویڈیوز کو دیکھ کر آپ مزے بھی لیتے ہیں اور آخر میں گالیاں بھی نکالتے ہیں۔ حالیہ کئی سالوں سے پاکستان پورن (فحش) فلمیں دیکھنے میں نمبر ون ہے، حکومتی پابندیوں کے باوجود یہ شرح کم نہیں ہوئی بلکہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، تو کیا اس میں بھی ان خواتین کا قصور ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ معاشرہ بیک وقت جنسی حوس پرستوں اور منافقوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔

اب آجائیں وہ مرد جو کہتے ہیں کہ اس طرح کی لڑکیاں روڈ شو کرتیں اور الٹے سیدھے سوالات کرتیں ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوں سے معاشرہ خراب ہوتا ہے۔ ان ناقص العقل دانشوروں سے سوال ہے کہ آپ کی غیرت تب کہاں چلی جاتی جب بھولا ریکارڈ جیسے واہیات اور گالم گلوچ کرنے والے یو ٹیوبر اور ٹک ٹاکر کی ویڈیوز آپ مزے سے دیکھتے ہیں۔ اس پر کبھی کسی نے کہا کہ یہ معاشرے کو تباہ و برباد کررہا، نہ صرف بھولا ریکارڈ بلکہ ڈکی بھائی ،شہویر جعفری، وقار ذکا، کراچی والے بھائی اور نہ جانے کتنے یوٹیوبرز مرد حضرات معاشرے کی مجموعی انحطاط کا باعث بن رہے ہیں، تب ہمارے کسی پاکستانی مرد کی غیرت نہیں جاگتی تب سوال نہیں ہوتا کہ معاشرہ تباہ ہورہا یا نہیں بلکہ ان یوٹیوبرز کی میمز کو خوشی سے شیئر کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب جھوٹی غیرت کی حامل قوم پہلے قندیل بلوچ کو گالیاں دیتی ہے اور پھر غیرت کے نام پر اس کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مرد یوٹیوبر کی بہن ، بھائی یا اہل خانہ نے انہیں غیرت کے نام پر قتل کیوں نہیں کیا؟

میرا ایک اور سوال یہ ہے کہ قصور میں 7 سالہ زینب ، مردان میں 8 سالہ اسماء، اور نہ جانے کتنے بچے اور بچیاں ان حیوانوں کی جنسی درندگی کا شکار ہوئیں بلکہ یہ حیوان تو مرغی یا بکری تک نہیں چھوڑتے کیا تب بھی قصور ان بچیوں اور خواتین کا ہے؟ آپ لوگ کس بے حیائی کی بات کرتے ہیں؟ یہاں تو دن میں راہ چلتی خاتون، بازاروں اور سیرو تفریح والے مقامات پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے بعد وہی بے غیرت لوگ اپنے دوستوں کو فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں آج فلاں لڑکی کو چھیڑا، کل فلاں کو چھیڑیں گے اور یہی صورتحال ہمارے بس سٹاپس، سکول کالج یونیورسٹی جاتی لڑکیوں کو چھیڑنے کی ہے۔ میرا پھر سوال ان غیرت مند لوگوں سے ہے کہ تب آپکی غیرت کہاں جاتی جب یہ درندے نما انسان لڑکیوں کی زندگیاں عذاب بناتے ہیں۔

ان افراد کی منافقت کی وجہ سے ان متاثرہ لڑکیوں کے گھر والے بھی معاملہ دبانے کے لیے ہر چیز سہہ لیتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ معاشرہ بے حس ہے اور اس معاشرے نے ان کی بیٹی کا قصور نکال دینا ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا اگر کسی لڑکی کے ساتھ ریپ یا اسے ہراساں کیا جائےتو عموماً گھر والے معاملہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہماری گھر کی عزت خراب نہ ہوجائے لیکن وہ بھیڑیا جس نے اس لڑکی کی زندگی برباد کی وہ دن دناتا باہر گھوم رہا ہوتا ہے۔ لیکن یہ معاشرہ خاموش تماشائی بنا ہوگا اور اگر غلطی سے کسی لڑکی نے رپورٹ درج کروا دی تو یہ معاشرہ اسے شک کی نظر سے دیکھے گا اور ویکٹم بلیمنگ کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ میرے بہت سے بھائی مجھے یورپ اور امریکہ کی مثالیں دیں گے اور بتائیں گے کہ وہاں ریپ کے بہت زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ یقیناً ریپ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو اسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور یقیناً وہاں ہمارے معاشرے کے مردوں جیسے مرد بھی وہاں پائے جاتے ہیں لیکن میرے معصوم بھائی آدھی تحقیق رکھتے، انہیں یہ بتلانا مقصود ہے کہ وہاں شادی کے بعد بیوی کی مرضی کے بغیر اسکے ساتھ زبردستی کرنا بھی ریپ کے زمرے میں آتا ہے، وہاں راہ چلتی کو تنگ کرنا یا ہراساں کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ دوسری جانب یہاں ہمارے معاشرے میں چند ہی کیسز پولیس اور میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں اور غیرت کے نام پر ناجانے کتنے کیسز دبا دیے جاتے ہیں۔

ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے اور آپ کے گھر کی خواتین کبھی نہ کبھی اس حراسگی کا شکار ضرور ہوئی ہوں گی لیکن وہ اس غیرت زدہ سوچ کے نام پر ہمیں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے اس معاشرے کا کند دماغ انہیں ہی غلط سمجھنا شروع کردے گا اور اس بیچاری کا گھر سے نکلنا ہی بند کردیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ نہ جانے کتنے 'مردودوں' نے غیرت کے نام پر اپنی بہنوں، بیویوں اور ماؤں کو قتل کر دیا، کیا کبھی کسی عورت نے غیرت کے نام پر اپنے بھائی ،شوہر یا بیٹے کو قتل کیا؟ اس معاشرے کو تباہ و برباد کرنے کے طعنے عورت کو دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں اور ہوش کےناخن لیں اور اس منافقت سے باہر آجائیں۔

لاہور موٹر وے سانحہ ، عثمان مرزا کی حیوانیت کا کیس، نور مقدم کا بہیمانہ قتل، قبرستان میں دفنائی جانے والی مردہ خاتون کی بے حرمتی کا واقعہ، بچوں کے ساتھ زیادتی کے نہ ختم ہونے والے واقعات اور حالیہ مینار پاکستان میں ٹک ٹاکر کے ساتھ ہونے والا یہ سلوک اور اسی طرح آئے روز نئے نئے واقعات میں حیوانیت انسانیت کا منہ چڑا رہی ہے۔

'وہ لڑکی باہر کیوں گئی؟ اسے نہیں پتا تھا اتنے مرد تھے وہاں؟ لگتا ہے اسے خود شوق تھا ایسی حرکتیں کرنے کا کیونکہ ایسی جگہ پر جانا خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے'

یہ تمام باتیں اورجملے ان بھیڑیوں کو مزید تقویت دیتے کہ اگر کوئی لڑکی ہمارے جھنڈ میں آگئی تو انہیں پورا حق ہے کہ وہ اسکی عزت کو پامال کردیں کیونکہ بعد میں ہمیں کونسا کسی نے کہنا ہے ، معاشرے کے تمام افراد ہمارا دفاع کرنے کے لیے موجود ہیں اور یہ ساری غلطی اور اس کا ملبہ بالآخر لڑکی پڑ گر جائے گا۔

ان تمام توجیہات پیش کرنے والوں سے سوال ہے کہ ان جنسی درندوں کو ہر جگہ گھومنے پھرنے کی آزادی کیوں ہے ؟ آخر کیوں ہماری گھر کی خواتین اس معاشرے میں آزاد طریقے سے گھوم نہیں سکتیں، خواتین کو چھوڑیں یہاں بچے، بچیاں یہاں تک کہ ہم خود اس معاشرے میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔

اگر معاشرے میں کچھ غلط ہو رہا ہے اور ہم اس کو صرف اس لیے دبانے کی کوشش کریں کہ ہماری بدنامی ہو گی تو معاشرہ کبھی درست سمت میں نہیں جا سکے گا۔ وہ افراد جو ہمیشہ خواتین کو ان کے ساتھ ہوئے سلوک کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ایک بیمار ذہنیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر اس معاشرے میں ایسے مزید واقعات ہونے سے روکنا ہے تو وکٹم بلیمنگ جیسی گمراہ کن توجہیات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگا۔ یقیناً اس کی تمام تر ذمہ داری ہم مردوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے اندر چھپے ہوئے درندے کو لگام دینا ہوگی اور تمام مردوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور اعادہ کرنا ہوگا کہ چاہے کوئی بھی عورت ہو، اس نے کیسے بھی لباس پہنا ہو، وہ آپ کی جنسی حوس پوری کرنے کی دکان نہیں۔

مصنف سٹی 42 اور چینل 24 کے ساتھ منسلک ایک رپورٹر اور صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پرAzmatAwann@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔