جنسی ہراسانی کی کہانیاں ہم سب عورتوں کی کہانیاں ہیں

جنسی ہراسانی کی کہانیاں ہم سب عورتوں کی کہانیاں ہیں
کچھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ ایک دن میں نے دفتر سے واپسی پر وقت بچانے کے لئے گوگل میپ کا سہارا لیتے ہوئے رنگ روڈ کا انتخاب کیا تا کہ گھنٹے کا سفر آدھے گھنٹے میں طے کیا جا سکے. یہ اس نئی رنگ روڈ پر میرا پہلا سفر تھا اس لئے گوگل پر مکمل انحصار کرتے ہوئے میں نے مختصر ترین راستہ اپنایا اور تجویز کردہ ایگزٹ لیا لیکن جب رنگ روڈ سے نیچے اتری تودیکھا کہ آگے کسی سڑ ک کا نام و نشا ن نہیں ہے بلکہ گھپ اندھیرا ، سناٹا اور کھیت ہیں .روشنی کے نام پر صرف میری گاڑی کی لائٹس تھیں جو اندھیرے میں دور تک دیکھی جا سکتی تھیں اور شاید دور کہیں دو چار مزدورموجودتھے۔

گوگل کے مطابق انہی کھیتوں میں سے ایک کچا راستہ تقریباً 1 کلومیٹر کے بعد پکّی سڑ ک پرنکل رہا تھا .الجھن اور بے یقینی کے مارے میں نےشارٹ کٹ کو مزید دریافت کرنے کا ارادہ ترک کیا, گاڑی واپس رنگ روڈ پر لائی اورگوگل کرتی کراتی اگلے ایگزٹ سے بخیرو آ فیت گھر پہنچ گئی. یہ پانچ منٹ میرے لئے صرف باعث کوفت تھے اور کچھ نہیں ، لیکن یہی پانچ منٹ میرے لئے پریشانی، صدمے اور ڈپریشن کا باعث تب بنے جب ستمبر 2020 میں سیالکوٹ موٹروے پر ریپ کا واقعہ ہوا . تب مجھے یہ احساس ہوا کہ زندگی میں شا ید کئی بار صرف الله نےمجھے بچایا ہے ورنہ اگررات میں سنسان کھیت میں ایک لڑکی کے ساتھ کچھ ہو بھی جائے تو اس کا ایسی جگہ پرموجود ہونا ہرعمل، ہر سفاکی ، ہر جرم سے بلاتر جُرم ہوتا !

2020 میں سرکاری اور صوبائی فلاحی اداروں سے حاصل کیے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں، صرف 41 فیصد رپورٹنگ ریٹس کے ساتھ ، ہر روز کم از کم 11ریپ کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں. پاکستان میں رہنے والی تقریباً ہر عورت آپکو ایسے کئی واقعات گنوا سکتی ہے جب اسےکسی نہ کسی نوعیت کی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ ا ہویا وہ بال بال بچ گئی ہو۔مختاراں مائی سے لے کرمناواں کی دس سال تک کی بچی تک ، زینب ، نور ،قراتہ العین، صائمہ، رضیہ بی بی اور عائشہ صدیقہ ، یہ سب نام نہیں ہیں۔ یہ ہم سب ہیں، یہ ہم کبھی بھی ہو سکتی تھیں. یا ہم کئی بار ہوتے ہوتے بچ گئی ہیں۔ اس لئے یہ کیسزہمارے ذاتی کیسز ہیں، ان کیسز کے ساتھ ہماری ذاتی نوعیت کی وابستگی ہے.

پے در پے ہونے والے واقعا ت اور ان پر آنے والے ردعمل کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں لڑکی ہر وقت ایک کُھلی تجوری کی طرح ہوتی ہے چاہے دن ہو یا رات ، وہ اکیلی ہو یا ہجوم کے ساتھ ، گھر میں ہو، گا ڑ ی میں، رکشہ میں یا پھر کھلے میدان میں ، ایک انچ کا بینڈ اس کے لئے عمر بھر کی رسوائی کا ذریعہ بن سکتا ہے . ایسے واقعات سے خواتین میں یہ خوف اور یہ یقین تقویت پکڑتا ہے کہ ہم اس ملک کی کمتر ترین شہری ہیں، ہمارے ساتھ کچھ بھی کہیں بھی ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں ذمہ دار بھی ہم ہی ہوں گے۔ وقت کے ساتھ اگر یہ احساسات کبھی دب بھی جاتے ہیں تو بھی ہرنیا واقعہ اس شدید عدم اعتماد کے احساس کوپوری قوت سے ابھار دیتا ہے۔ یہ کوئی عا م احساس نہیں ہوتا ، اس میں انتہائی ذلّت ، بے بسی اور غصّہ شامل ہوتا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ ایسے واقعا ت پر اکثریت کا ردعمل ہے۔ جنسی ہراسانی پوری دنیا میں ہوتی ہے لیکن جس طرح پاکستان میں ایسے واقعات کے بعد 'وکٹم بلیمنگ' کاایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے یہ اعزا ز غالباً صرف پاکستان کو ہی حاصل ہے .ایسے تمام واقعا ت اور معاشرے میں ان سے جنم لینے والی وکٹم بلیمنگ کی فضا خواتین کونفسیاتی طور پر کس قدر کمزور کرتی ہےاس پر بات کرنا بھی اتنائی ضروری ہے جتنا انصاف کے بنیادی حصول پر۔

ایک مغربی فلم(The Accused) دی ایکیوزڈ میں ایک خاتون کو ایک بار میں وحشیانہ اجتمائی زیادتی کا سامنا کرنے کے بعد ایک پراسیکیوٹر نہ صرف مجرموں کو بلکہ ان لوگوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لاتی ہے جنہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خوشی سے تالیاں بجا ئیں تھیں۔ شاید پاکستان میں بھی ایسے ہی فیکشنل (Fictional) انصاف کی ضرورت ہے جس میں مجرم کے سہولت کاروں اور ہمدردوں کوبھی سزائیں دی جا سکیں۔ لیکن ایک منٹ ! یہ اس لئے نہیں ہو سکتا کہ قانون نافذ کرنے والے خود شا ید اس لائن میں سب سے پہلے کھڑے ہیں ۔ جس طریقے سے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار عائشہ اکرم کے واقعہ کو لے کر چل رہے ہیں وہ خوش آئند اور پر امید تو ہے لیکن بات یہاں سے شروع ہوتی ہے ختم نہیں ۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر سیکورٹی فورسز کے خلاف پروپیگنڈا کرنے پراکاؤنٹس بند ہو سکتے ہیں توانتہائی نا مناسب وکٹم بلیمنگ پر وارننگ جاری کیوں نہیں ہو سکتی ؟ حالیہ واقعات پر میں چاہنے کہ باوجود سوشل میڈیا پر لکھنے کی ہمّت نہیں کرپائی کیونکہ میرے ہی کنکشنز میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو حوالاجات کے ساتھ یہ ثابت کر دیں گے کہ غلطی عائشہ اکرم ہی کی تھی۔ ایسے خود ساختہ ، نر کے بچے دانشوروں کا سب سے بڑا حوالہ عموما وہ لالی پاپ کی تصویر ہوتی ہے جس میں چونٹیاں ایک بند لالی پوپ کو بخشتے ہوئے کھلے لالی پاپ کا رخ کیے ہوئے ہیں۔ ایسے دلائل کا مقابلہ کرنے کے لئے یقینناً ایک الگ طرح کی انرجی اور ذہانت چاہیے جو بیشترذی شعورخواتین میں نہیں ہوتی۔

سادہ سا سوال ہے کہ جس خدا نے مرد کو بنایا اسی نے عورت کو بنایا۔ عورت کو بھی آنکھیں ، کان ، دل اور دماغ دیا اور مرد کو بھی۔ مذہب میں بھی عورت کو بلکل ویسے ہی بحیثیت انسان تسلیم کیا گیا ہے جیسے مرد کو کیا گیا ہے اور تو اور پا کستان کے آئین میں بھی عورت کو وہ تمام انسانی حقوق دیے گئے ہیں جو مرد کودے گئے ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ عورت کو ہمیشہ اپنی نقل و حرکت جیسے بنیادی حق اورعزت بچا نے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ؟ کیا ہم ایک کمتر خدا کی بنائی گئی مخلوق ہیں؟

 

مصنفہ ایک سرکاری ملازم ہیں اور تعلقات عامہ کے شعبے سے تعلّق رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں انسانی حقوق اور انسانی رویوں سے متعلق تحقیق کرنے میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر NabeelaRafique_@ کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔