آئینی بدعنوانی

آئینی بدعنوانی
2013ء میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے ”کرپشن انڈکس“ پر پاکستان179  ممالک میں 127  ویں درجے پر تھا ۔ نواز شریف کے دور  (2014-18) میں اس کا درجہ کچھ بہتر ہوکر 117  تک آگیا ۔ توکیا پاکستان اور اُس وقت کا حکمران ”کم بدعنوان“ تھے؟ گزشتہ تین برسوں میں عمران خان کے دور حکومت  (2018-2020)  میں پاکستان دوبارہ 124   ویں درجے پرچلا گیا ۔ تو کیا پاکستان اور اس کا حکمران ”زیادہ بدعنوان“ہیں؟ اس کے باوجود شہروں میں رہنے والے زیادہ تر ”تعلیم یافتہ“ پاکستانیوں کا اصرار ہے کہ نوا زشریف اور ان کے ساتھی بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے تھے جب کہ عمران خان اور ان کے ساتھی دودھ کے دھلے ہیں ۔

نواز شریف کو عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دے دیا گیاکیوں کہ وہ ایک معمولی سی رقم اپنے کاغذات میں ظاہر کرنے میں ناکام رہے جو اُنہوں نے وصول بھی نہیں کی تھی ۔ اُنہیں ”بدعنوانی“ کی پاداش میں سزا اس لیے ہوئی کیوں کہ وہ اپنے والد مرحوم کی کچھ اثاثوں کی ”تسلی بخش“ منی ٹریل فراہم نہ کرسکے، حالاں کہ بدعنوانی ثابت نہیں ہوئی تھی۔

لیکن عمران خان اسلام آباد میں اربوں روپوں مالیت کی وسیع وعریض جائیداد میں رہتے ہیں (جہاں ان کے سالانہ اخراجات کروڑوں روپے ہوں گے) لیکن اس جائیداد کو سی ڈی اے نے برق رفتاری سے ”ریگولر“ کردیا ۔ اُن کے زمان پارک، لاہورمیں آبائی گھر کی تزئین و آرائش پربھی کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریک انصاف کے غیر ملکی مشکوک عطیات پر فیصلہ لینے سے خائف ہے۔اس سب کے باوجود وہ وزارت اعظمی کے منصب پر براجمان ہیں کیوں کہ ان سب امور میں کسی کو بدعنوانی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی ۔

نواز شریف پر 2013  ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا حالاں کہ وہ منظر پر موجود نہیں تھے۔ ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے انکوائری کمیشن کے مطابق وہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے تھے۔  2018 ء کے عام انتخابات میں  نصف شب کو نامعلوم طور پر آرٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا اور عمران خان جیت گئے۔ اُس وقت کے نادرا کے سربراہ کا کہنا تھا سسٹم کو جان بوجھ کر بند کیا گیا تھا۔ اسی دوران تحریک انصاف کو چالیس کے قریب اضافی نشستیں دلا دی گئیں۔

اب عمران خان دھاندلی زدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں، آرٹی ایس اور سترلاکھ سمندرپار پاکستانیوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے ارسال کردہ ووٹوں کے بل بوتے پر دوسری مدت کے لیے جیتنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن اور حزب اختلاف کی جماعتیں ان اقدامات کے خلاف ہیں ۔ لیکن کسی کو ان میں بدعنوانی کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔

نیب نے پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں اور حامیوں کے خلاف بدعنوانی کے درجنوں کیسز کھول رکھے ہیں لیکن گزشتہ تین برسوں میں ایک بھی ثابت نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف نیب نے تحریک انصاف کے کسی راہ نما کو انگلی تک نہیں لگائی ۔ نہ ہی  شوگر، گندم، بی آرٹی اور مالم جبہ کک بیکس کی رپوٹوں اور روزانہ کی بنیاد پر پنجاب حکومت میں ہونے والی بھاری بھرکم  بدعنوانی پر کوئی پیشانی شکن آلودہوئی ۔ تواتر سے ہونے والے اعلیٰ اور نچلی سطح پر تبادلوں اور تقرریوں میں بدعنوانی کاعمل دخل بھی کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

حزب اختلاف کے سیاست دانوں کی انفرادی بدعنوانی کی یک طرفہ طور پر تیار کردہ غیر ثابت شدہ رپورٹوں کے دوسری طرف ریاستی اداروں کی منظم بدعنوانی ہے۔ سرکاری افسران، جنرل اور جج قیمتی پلاٹ اور سرکاری زمین اپنے نام الاٹ کرالیتے ہیں۔ وہ سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے بہت سی سہولیات اور فوائد حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کرسکتے ہیں کیوں کہ قوانین اُنہیں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اور یہ قوانین اُنہوں نے خود ہی بنائے ہوتے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ باعزت افراد کہلاتے ہیں، اور یہ بدعنوانی نہیں ہے۔ تاجر اور کاروباری افراد واجب الادا ٹیکس نہیں دیتے کیوں کہ وہ ٹیکس جمع کرنے والوں کو رشوت دے سکتے ہیں ۔ لیکن انہیں معیشت چلانے والا انجن قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بھی بدعنوانی نہیں ۔ بڑے بڑے جاگیر داروں کی پارلیمنٹ میں توانا موجودگی ہے۔ وہ زرعی آمدنی یا دولت ٹیکس پر قانون سازی نہیں ہونے دیتے۔ لیکن وہ اس دھرتی کے سپوت ہیں، اس لیے ٹیکس نہ دینا کوئی بدعنوانی نہیں۔ بہت سے چوٹی کے پیشہ ورماہرین اپنی اصل آمدنی کے بہت کم حصے پر ٹیکس دیتے ہیں۔ لیکن اُن کا شمار بھی معاشرے کے معززین میں ہوتا ہے،اور یہ بھی بدعنوانی نہیں۔

درحقیقت بدعنوانی ایک طرز زندگی ہے جو صرف سیاست دانوں اور ریاست کے افسران تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی جڑیں معاشرے اور اس کے معاشی طور پر خوش حال طبقوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ کم یا زیادہ، کسی نہ کسی شکل میں ہر سیاسی نظام میں موجود رہتی ہے۔ حکمران جمہوری ہوں یا آمر، سولین ہوں یا فوجی، دونوں کا حال اس حمام میں ایک جیسا ہے۔ سرمایہ دارامریکا میں جمہوری حکمران، کارپوریٹ باس، بنکار اور سٹاک بروکر دولت کی مارکیٹ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسی طرح پنٹاگان کے جنرل، اسلحہ ساز کمپنیاں اور کنٹریکٹر جنگوں کے ذریعے بھاری کمیشن اور بونس وصول کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں لڑی جانے والی امریکا کی جنگوں میں کئی ٹریلین ڈالروں کی گردش دیکھی۔

مالی بدعنوانی کا دائرہ بہت زیادہ پھیلاہوا ہے۔ اس وجہ سے یہ ”عام“ ہے۔ تو پاکستان میں کچھ لوگ صرف اس پر انتہائی پوزیشن کیوں لے لیتے ہیں؟ وہ اس بدعنوانی کی طرف کیوں نہیں دیکھتے جو معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی کررہی ہے،اور اس کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی پن کا شکار ہے؟  اس سے مراد آئینی بدعنوانی ہے۔ دفاعی ادارے کی بالادستی، اکثریت کا جبر، انتخابی دھاندلی، انصاف سے محرومی، دوغلا نظام، وغیرہ۔ یہ بدعنوانی عمرانی معاہدے ( آئین) کے اس اعتماد کوتباہ کردیتی ہے جو عوام اور حکمرانوں کے درمیان پایا جاتا ہے اور جس پر جدید ریاست اور قوم کی بنیاد استوار ہے۔

ریاست کے احتساب سے بالا تر سمجھے جانے والے اداروں نے پاکستان میں جتنی بھی آئینی حکومتیں ختم کیں، اس کے لیے مالی بدعنوانی کو جواز بنایا گیا ۔ لیکن عوام کی منتخب شدہ حکومت کو برطرف کرنا بذات خود ایک آئینی بدعنوانی ہے جو سنگینی میں برطرف کرنے کے جواز سے کہیں بڑھ کر ہے۔ انتخابی دھاندلی کا ہر اقدام ایک نئی حکومت کی تبدیلی سے بڑی آئینی بدعنوانی ہے۔ کسی بھی ادارے کو ملک کے سفید سیاہ کا مالک بنا دینا تمام آئین کی پامالی کے مترادف ہے کیوں کہ آئین یہ اختیار عوام کی منتخب شدہ پارلیمنٹ کو دیتا ہے۔ یہ بدعنوانی کی بدترین قسم ہے۔ ریاسست پاکستان قانون اور آئین رکھتی ہے، اور انہی کی سربلندی درکار ہے۔ لیکن جب ریاست کا کوئی ادارہ غیر آئینی اقدام کرتا اور اس میں مداخلت کرتا ہے تو اس اقدام کو بدترین بدعنوانی قرا ر دینادرست ہے۔ اس چیلنج کو ”ریاست دشمنی“ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

آئیے ایک حقیقت کا سامنا کریں۔ نواز شریف کوئی فرشتہ نہیں، اوروہ کبھی بھی نہیں تھے۔ کبھی اُنہیں بھی ایک غیر آئینی بندوبست نے پالا تھا، جیسے آج عمران خان کو پالا جارہا ہے۔ اُس وقت نواز شریف کی مخالفت کرنا، انہیں بے نقاب کرنا درست تھا۔ اسی طرح آج عمران خان کی مخالفت کرنا اور انہیں بے نقاب کرنا غلط نہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں ایک اور حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی۔ گزشتہ دہائی میں حاصل ہونے والے تجربات نے نوا زشریف کو سیاسی طور پر بالغ اور باشعور کردیا ہے۔ اب وہ طاقت ور ریاستی اداروں کی پاکستانیوں کی زندگی اور آزادی پر روا رکھی جانے والی غیر آئینی مداخلت کو چیلنج کررہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنے ذاتی تحفظ، مالی وسائل کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ غیر جمہوری طریقے سے اقتدار کی پیش کش کو بھی ٹھکرا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اُنہوں نے اس آئینی بدعنوانی کو شناخت کیا ہے اور اپنی تمام تر توانائیوں کا رخ ریاست اور معاشرے کے درمیان پائے جانے والے بنیادی تضاد کو ختم کرنے پر مرکوز کردیا ہے۔ اس کی پاداش میں اُنہیں قیدو بند اور جلاطنی کا سامنا ہے۔ آئینی بدعنوانی کے خلاف یہ وہ سیاسی بیانیہ ہے جو ہماری حمایت کا متقاضی ہے۔

نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔