پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف جنگ پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اجارہ

پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف جنگ پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اجارہ
سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لئے بنائی گئی ایپکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں سول اور ملٹری دونوں لیڈران نے یہ عہد کیا کہ وہ پاکستان کو درپیش تمام سکیورٹی خدشات سے نمٹیں گے۔ انتہا پسند جنگجوؤں کی جانب سے بڑھتے خدشات کی موجودگی میں اس اجلاس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔ افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد سے تحریکِ طالبان پاکستان اور ایسی دیگر تنظیموں کو خاصا حوصلہ ملا ہے۔ پاکستان میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج کے اہلکاروں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی شہریوں پر حملے خصوصی طور پر تشویش کا باعث ہیں۔

2014 میں آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد 21 دسمبر کو سویلین اور ملٹری لیڈران وزارتِ داخلہ کی دعوت پر سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ان افراد نے اپنے تجربے اور مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی داخلی سکیورٹی کے حوالے سے کچھ مسائل کو پاکستان کی بقا کا مسئلہ گردانا تھا۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سدِ باب کے لئے ان کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز کو 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ جس میں مختصر، درمیانے اور طویل دورانیے میں لیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ایک حکمتِ عملی وضع کی گئی تھی اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے وزرائے اعلیٰ اور فوج کے کور کمانڈرز پر مبنی ایپکس کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔

تاہم، اس وقت کی سویلین اور ملٹری لیڈرشپ میں اختیارات کی ایک جنگ جاری تھی جس کی وجہ سے انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے لیے جانے والے اقدامات پر فوج کا مکمل اجارہ قائم ہو گیا۔ نتیجتاً انتہا پسندی کے سدِ باب کے لئے وضع کی گئی حکمتِ عملی طویل مدتی عملدرآمد کے حوالے سے ادارہ جاتی لڑائی کی نذر ہو گئی۔ 2019 اور 2020 میں قومی انسدادِ دہشتگردی اتھارٹی یعنی نیکٹا کی جانب سے ایک نیا پالیسی ریویو کیا گیا۔ اس میں دی گئی زیادہ تر تجاویز حالیہ ایپکس کمیٹی اجلاس میں منظور کر لی گئی ہیں جس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ انسدادِ دہشتگردی اور انسدادِ انتہا پسندی کے لئے لیے جانے والے اقدامات میں ایک میزان قائم ہوگا۔

نیشنل کرائسس انفارمیشن منیجمنٹ سیل کے قیام کا فیصلہ 9/11 کے بعد مشرف دور میں وزارتِ داخلہ میں قائم کیے گئے نیشنل کرائسس منیجمنٹ سیل کا ہی ایک نیا روپ لگتا ہے جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ برگیڈیئر کر رہے تھے۔ نیکٹا کے قیام کے بعد یہ ادارہ اس میں ضم کر دیا گیا تھا۔ وزارتِ داخلہ میں قائم ہونے والا یہ نیا ادارہ، جس کا سربراہ ایک بار پھر ایک برگیڈیئر ہی ہوگا، ایک ایسا فیصلہ لگتا ہے جو سویلین ماتحتی میں چلنے والے نیکٹا کی طاقت کو کم کرے گا اور نتیجتاً داخلی سکیورٹی کے حوالے سے فوج کا کردار مزید بڑھائے گا۔ انسدادِ دہشتگردی اور انسدادِ شدت پسندی کے حوالے سے انٹیلیجنس شیئرنگ، مانیٹرنگ اور رابطہ کاری نیکٹا کا قانونی مینڈیٹ تھا۔ اس پر عملدرآمد صوبائی حکومتوں نے اپنے محکمہ ہائے داخلہ اور وزارتِ داخلہ نے نیشنل پولیس بیورو کے ذریعے یقینی بنانا تھا۔ دراصل ایپکس کمیٹیاں تو عارضی طور پر قائم کی گئی تھیں تاکہ نیشنل ایکشن پلان کی مانیٹرنگ اور بہتر رابطے میں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور فوجی حکام کی مدد کر سکیں۔

اس کرائسس منیجمنٹ سیل کی واپسی اور اس سے قبل نیشنل انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹی کا قیام فوجی اسٹیبلشمنٹ کے داخلی سکیورٹی میں مزید طاقتور ہوتے ہوئے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ نیشنل انٹیلیجنس کوآرڈینیشن کمیٹی کی سربراہی آئی ایس آئی کے پاس ہے۔ انٹیلیجنس بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ سویلین محکمے ہیں جن کے اپنے قانونی مینڈیٹ ہیں۔ انہیں کسی اور ادارے سے ہدایات نہیں لینی چاہئیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں سویلین قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلیجنس ادارے یعنی ایف آئی اے، آئی بی اور نیکٹا غائب ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کونسل داخلی سکیورٹی کے معاملات کو دیکھتی ہے اور سویلین اداروں کی اس میں غیر موجودگی اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ سکیورٹی معاملات میں ہر طرح سے فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی کا حکم چلتا ہے۔ ایک جمہوری حکومت کو یہ تاثر زائل کرنا چاہیے۔

رپورٹ ہوا ہے کہ ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کسی کو ہتھیار اٹھانے اور پرتشدد کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ٹی ایل پی جیسی جماعتوں کو چھوٹ دینے سے ریاستی رٹ میں ہمیشہ کمی آئی ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ ریاستی ادارے تحریکِ طالبان پاکستان سے ایک امن معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا کوئی بھی معاہدہ نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہوگا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماضی میں قومی اثاثے سمجھے جانے والے انتہا پسند جو افغانستان میں سرگرمِ عمل تھے ان سے ریاست سختی سے نمٹ کر ان کو غیر فعال کرے گی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2019 میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پراکسیز کا وقت اب گزر چکا ہے۔ مارچ 2021 میں اسلام آباد میں ہوئے سکیورٹی ڈائیلاگ میں انہوں نے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کریں گے، باہر سے کوئی بھی اچھی امید رکھنا کارِ عبث ہے۔ امریکی سینٹ کام کمانڈر کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں کا پھر سے اکٹھا ہونا مستقبل میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔

نیشنل ایکشن پلان پر نظرِ ثانی کے دوران معاشرے میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر بھی غور کیا گیا۔ غیر قانونی اسلحے کے لئے مکمل عدم برداشت اور غیر قانونی بور والے اسلحے کے لئے لائسنس پر مکمل پابندی عائد کرنے والی آرمز کنٹرول پالیسی کی ہمیں ضرورت تھی لیکن پاکستان نے اب تک غیر قانونی اسلحے پر اقوامِ متحدہ کی تجاویز پر دستخط ہی نہیں کیے ہیں۔

پاکستان اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہونے والی ٹرانس نیشنل آرگنائزڈ کرائم کنونشن کی نظرِ ثانی سے بھی گزر رہا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس کے لئے حکومت نے ایک فوکل پوائنٹ مقرر کیا ہے اور منظم جرائم کا ایک قومی ماہر بھی اپوائنٹ کیا ہے۔ اس قسم کے جرائم کا مقابلہ کرنے والی اہم ترین ایجنسی ایف آئی اے ہے۔ سمگلنگ، انسانی سمگلنگ، سائبر کرائم اور غیر قانونی رقوم کی ترسیل بھی ایف آئی اے کے قانونی مینڈیٹ کا حصہ ہیں۔ عملدرآمد کا نظام ہی متوقع نتائج دینے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

کہا گیا ہے کہ ایپکس کمیٹی سامنے آنے والے سکیورٹی خطرات بشمول سائبر سکیورٹی اور جاسوسی، عدالتی اور سول سروس اصلاحات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے، انسدادِ شدت پسندی اور قومی سلامتی کو درپیش دیگر خطرات کے حوالے سے لیے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد کو تیز تر بنائے گی۔ حال ہی میں جاری کی گئی سائبر سکیورٹی پالیسی کے لئے عملدرآمد کا نظام بہت سوچ سمجھ کر بنانا ہوگا۔ 2009 میں سائبر سکیورٹی کے حوالے سے ایک فریم ورک ایف آئی اے میں بنایا گیا تھا لیکن اس پر کسی نے مزید کام نہیں کیا۔ جاسوسی یقیناً ریاستی ایجنسیز کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ کیا جاسوسی کا مقابلہ کرنے والی وفاقی انٹیلیجنس ایجنسیاں آئی ایس آئی اور آئی بی کسی قانونی ضابطۂ کار میں رہتے ہوئے کام کرتی ہیں؟ ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور ان کا ایک مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ یہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انٹیلیجنس آپریشنز پر کوئی پارلیمانی چیک بھی نہیں ہے۔

گورننس اور نظامِ انصاف کو بہتر بنانے میں حکومت کا ماضی یہی بتاتا ہے کہ ان میں استعداد اور دلچسپی دونوں ہی نہیں ہیں۔ گذشتہ اکتوبر میں ایک کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ملک میں بڑھتی مذہبی عدم برداشت اور پر تشدد انتہا پسندی کے سد باب کے لئے ایک انسداد انتہا پسندی کمیشن بنایا جائے گا۔ آج تک اس کے کوئی قانونی خدوخال سامنے نہیں آ سکے۔ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے بھی محض باتیں ہی کی جاتی رہی ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گذشتہ تین سال میں آئی جی پولیس کی عہدے پر مدت اوسطاً چھ ماہ رہی ہے۔ وفاقی سیکرٹریوں اور صوبائی چیف سیکرٹریوں کے عہدے پر رہنے کی مدت کا کوئی قانون نہیں ہے۔ اعلیٰ ترین عدالتوں تک میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے طریقہ کار شفاف نہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پولیس افسران کے احتساب کا نظام محض نام کا ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود نیب ایک غیر شفاف احتسابی عمل پر مسلسل عمل پیرا ہے۔

مختصر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ بااختیار لوگوں کو طاقت کا اندازہ ہے۔ انہیں یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ کہاں ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کا درست اور غلط استعمال کیسے کرنا ہے۔

ترجمہ: علی وارثی

 

مصنف سابق آئی جی پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے ہیں۔