اب ہر صحافی کو ایکٹیوسٹ بن کر آزادی صحافت کا تحفظ کرنا ہوگا

اب ہر صحافی کو ایکٹیوسٹ بن کر آزادی صحافت کا تحفظ کرنا ہوگا

قیام پاکستان سے لیکر  اب تک میڈیا پابند سلاسل رہا ہے اور ملک کو ایک جمہوری اور سیاسی نطام دلانے والوں کو ہر دور میں ملک دشمن اور غدار ٹھہرایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک ملک کو ایک سیاسی نظام دینے میں کامیاب نہیں  ہو پارہے ہیں   اور نہ ہی جمہوریت کو پنپنے دیا گیا ۔ مارشل لازاور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف جہاں سیاسی جماعتوں نے آواز بلند کرتے ہوئے کوڈے کھائے وہاں میڈیا پر بدترین سنسرشپ اور میڈیا کی آزادی کے لیے صحافتی تنظیموں اور  صحافیوں نے بھی سول سپرمیسی اور میڈیا کی آزادی کے لیے جدوجہد کے میدان میں  ایک کلیدی کردار ادا کیا اور کرتے آرہے ہیں اسی وجہ سے آج بے شمار صحافی یا تو ملک بدر ہوگئے ہیں یا اسکرین سے آؤٹ ہیں ۔

سیاست اور صحافت یا ایکٹیوسٹ اور جرنلسٹ کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم یہ رائے دینے میں حق بجانب ہیں کہ اسوقت یہ دونوں ہی ہیں جو کہ اس ملک کو ایک بہتر فلاحی اور جمہوری نظام دینے کے لیے کوشاں ہیں، اس لیے اب ہر صحافی کو ایکٹوسٹ بن کر آزادی صحافت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ ایک جرنلسٹ ہرگز ایک ایکٹیوسٹ  نہیں بننا چاہتا اگر   میڈیا پر بدترین سنسرشپ اور میڈیا ورکرز کو   شعوری طور پر سیٹھوں کے ماتحت بنانے والی پالیسی نہ اپنائی ہوتی ۔ اس  روش او ر پالیسی کو تبدیل نہیں گیا گیا تو وہ وقت بھی دور نہیں کہ ہر شہری ایک ایکٹیوسٹ کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے گا اور اس میں اس ملک کے ( رائیٹ ونگ) دائیں بازو کے نظریے کے لوگ بھی شامل ہوں گے جو کہ ہمیشہ   روشن خیال ، سیکولر اور جمہوری  افکار کے لوگوں اور تحریک کو ثبوتاژ کرتے آرہے ہیں ۔

اگرچہ آج بھی دیکھا جائے تو عوامی بالا دستی، جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو آگے لے جانے والی سیاسی قیادت  وقتی طور  اقتدار  سے باہر رہ کر ملک سے باہر یہی بیانیے کیساتھ کھڑی ہے مگر باقی ماندہ سیاسی قیادت ملک کے اندر رہتے ہوئے اس بیانیے کیساتھ تحریک چلارہے ہیں۔ حامد میر، ابصار عالم ، مطیع اللہ جان ، طلعت حسین جیسے جرات مند اور حق و سچ کیساتھ کڑے ہوکر  اس وقت کی بدترین سنسرشپ اور جمہوری اداروں کے خلاف کھڑے ہونے کی پاداش میں  اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا اور  اب بھی بھگت رہے ہیں ۔ابصار عالم، اسد طور، مطیع اللہ جان اور اعزاز سید کو کا واقع بھی اسی کا ایک تسلسل  ہے ۔

اس بارے میں میں نے ایک متاثر سینئر صحافی ابصار عالم سے بات کی تو انکا کہنا تھا  کہ پاکستان میں اس وقت سخت سنسر شپ ہے اور میڈیا کی آزادی سلب ہوچکی ہے۔ میڈیا کے لیے اتنا مشکل وقت ملک کی پوری تاریخ  میں کبھی نہیں آیا جتنا اب آیا ہے۔ مجھ سمیت بہت سارے صحافی ایسے ہیں جو سولات اُٹھاتے ہیں اس لیے انکے سکرین پر آنے پر غیر اعلانیہ  پابندی ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے صرف  تعریفی تبصروں کی اجازت ہے ۔   انکا مزید کہنا تھا کہ معاشرے پر اسکے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گےکیونکہ جب کوئی حکومت میڈا پر پابندیاں لگاتا ہے تو سچ سامنے نہیں آسکتا۔ اس سنسرشپ سے حکومتیں  اپنی کارکردگی مزید خراب کرتی ہیں لیکن عوام کی آواز  ان   تک  پہنچنا بند ہوجاتی ہے جس سے ملک کے مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

حال ہی میں حکومت کی جانب سے میڈیا ریگولیٹری بل  لانے کو بلوچستان کی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا ۔

اس تمام تر صورتحال میں اصل حقائق عوام تک پہنچانے میں اس صورت حال پر تبصرے  مین اسٹریم میڈیا سے بلیک آؤٹ ہیں۔  اسکی وجہ میڈیا مالکان کے کمرشل مفادات اور میڈیا پر سنسر شپ ہے  ۔ اس صورت حال میں کیسی پالیسی اپنائی جائے کہ میڈیا سمیت جمہوریت عمل کو  اس بحران سے نکالنے میں مدد مل سکے ۔

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔