سیاست دانوں کی لیک ویڈیوز کا منظر عام پر آنا کیا پیغام دیتا ہے؟

سیاست دانوں کی لیک ویڈیوز کا منظر عام پر آنا کیا پیغام دیتا ہے؟

اسلام آباد: پاکستان کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہے جہاں سیاست دانوں، ججوں اور دیگر مکتبہ فکر کو بدنام کرنے کے لئے اُن کی نجی زندگی کی ویڈیوز ایک مخصوص وقت میں منظر عام پر لائی جاتی ہیں تاکہ ان کو سماج میں نہ صرف بدنام کیا جاسکے بلکہ اپنے عزائم پورے کرنے کے لئے اُن پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔

سال 2018 کے عام انتخابات سے پہلے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک سرگرم کارکن اور ایوان کے ممبر کے بیڈروم میں خفیے کیمرے لگا کر بیس سے زائد ایسی نجی زندگی کی ویڈیو بنائی گئی اورپھر اُن کو بلیک میل کرکے حکمران جماعت میں شامل کیا گیا۔ اسی طرح احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی بھی نجی زندگی کی ویڈیوز بنا کر اُن کو بلیک میل کیا گیا۔

سیاست پر نظر رکھنے والے پنڈتوں کے مطابق سیاست دانوں ، ججوں اور دیگر لوگوں کی نجی زندگیوں کی ویڈیوز کو ایک مخصوص وقت میں منطر عام پر لایا جاتا ہے اور ان کے پیچھے ہمیشہ سیاسی یا پھر مالی عزائم ہوتے ہیں ۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر کی ایک نجی زندگی کی ایک مبینہ ویڈیو منظر عام پر آگئی جس کے بعد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کے بارے میں بازگشت ہورہی ہے۔

اس مبینہ ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ 'یہ سیاست نہیں ہے بلکہ نئی پستی ہے اور ویڈیو 'جعلی اور تبدیل شدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'اس کام میں جو بھی ملوث ہے اس نے انتہائی خراب اور شرمناک حرکت کی ہے۔

دوسری جانب کراچی کے سٹی کورٹ تھانے میں سابق گورنر سندھ کے خلاف اس ویڈیو کی بنیاد پر مقدمہ دائر کرنے کے لئے درخواست دائر کی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی کے سٹی کورٹ تھانے میں یہ درخواست وکلاء کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ محمد زبیر نے گورنر سندھ کے عہدے کی حیثیت سے غلط استعمال کیا ہے جو کہ ایک جرم ہے جس پر سزا ملنی چاہیے۔

یہ درخواست کراچی کی عدالت میں ایڈووکیٹ مظہر اور اعجاز جتوئی کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں نازیبا ویڈیو لیک والے معاملے کی تحقیقات کرنے اور لیگی رہنما محمد زبیر کے خلاف مقدمہ درج کی درخواست کی گئی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری انفارمیشن زاہد خان نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ نجی ویڈیوز کا منظر عام پر آنا پاکستانی سیاست کا ایک بدنما داغ ہے جس سے ہمیشہ سیاست اور سیاست دانوں کو بدنام کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نجی ویڈیوز کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کھلم کھلا بدنام کرنا اور سماج میں ان کی سیاسی قد کاٹ کو نشانہ بنانا ہے۔ زاہد خان نے مزید کہا کہ ان ویڈیوز کو اگر جواز بنانا ہے اور کسی کی کردار کشی کرنی ہے تو پھر تو موجودہ وزیراعظم عمران خان کی بھی کئی ویڈیوز منظر عام پر آجائیں گی، جب سیاسی عزائم کو پورا کرنے کے لئے ان کی ضرورت پڑی لیکن کیا اُن کو جواز بنایا جاسکتا ہے۔

زاہد خان نے مزید کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی اور میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ نجی زندگیوں کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس حکومت میں مسلسل ویڈیو ز سکینڈلز سامنے آرہے ہیں لیکن میں یہ بتاتا چلوں کہ ایسی ویڈیوز سے نہ آپ خارجہ محاذ پر کوئی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں نہ داخلی محاذ پر، نہ آپ ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی معیشت کو درست کرسکتے ہیں۔ اس لئے ویڈیوز سکینڈلز کی بجائے عوام اور ملک پر توجہ مرکوز کرو تاکہ لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئے۔

جیو نیوز سے منسلک صحافی اعزاز سید نے جنگ اخبار کے لئے لکھے گئے ایک کالم میں انکشاف کیا تھا کہ جمیعت علمائے اسلام ف کے ایک سینئر رہنما کے بیڈ روم میں خفیے کیمرے لگا کر اُن کو بلیک میل کیا گیا اور پھر اُن کو حکمران جماعت میں شامل کیا گیا۔ اعراز سید نے سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی مبینہ ویڈیو پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیاستدانوں کو ہی ایسی حرکات سے بدنام کیا جاتا ہے اور بدنام کرنے والے سازشی ہمیشہ چھپے رہتے ہیں۔

اعزاز سید نے کہا کہ اصل چیلنج یہ ہے کہ ان سازشیوں کو بے نقاب کرنا ہے جو ہمیشہ چھپ کر ہی ایسی سازشیں کرتے ہیں لیکن آج زبیر صاحب پر حملہ کیا گیا ہے تو کل عمران خان اور دیگر سیاستدان بھی اس کی زد میں آئیں گے اس لئے ان چھپے کرداروں کو سامنے لانا بہت ضروری ہے۔


عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔