• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

جنرل باجوہ کے پیچھے تمام فوج متحد ہو کر کھڑی ہے

یہ کوئی راز نہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ جنرل فیض ہی آئی ایس آئی کے سربراہ رہیں تاکہ وہ نہ صرف حزب اختلاف کو مسلسل دباؤ میں رکھیں بلکہ اُنہیں اگلے انتخابات میں اسی طرح کامیابی دلائیں جس طرح 2018 ء میں دلائی تھی۔ اس کے صلے میں عمران خان نے جنرل فیض کو نومبر 2022 ء میں آرمی چیف بنانے کا وعدہ کررکھا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے بخیے ادھڑنے سے حالیہ بحران نے سر اُٹھا لیا۔

نجم سیٹھی by نجم سیٹھی
اکتوبر 15, 2021
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
488 5
0
جنرل باجوہ کے پیچھے تمام فوج متحد ہو کر کھڑی ہے
575
SHARES
2.7k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

اسٹبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر عمران خان کسی صورت گذشتہ انتخابات نہیں جیت سکتے تھے۔ درحقیقت وہ اپنی نالائقی اور ناقص کارکردگی کے بوجھ تلے دب کر سیاسی طور منہ کے بل گرچکے ہوتے اگر اسٹبلشمنٹ اُنہیں سہارا نہ دیے رکھتی۔اور یہ چیز ادارے کے لیے شرمندگی کا باعث بھی بنی ہے۔ تو پھر عمران خان نے جنرل فیض حمید کو ڈی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھنے کا اصرار کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کو ناراض کیوں کرلیا جب کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اس کے برعکس فیصلہ کرچکے تھے؟

یہ کوئی راز نہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ جنرل فیض ہی آئی ایس آئی کے سربراہ رہیں تاکہ وہ نہ صرف حزب اختلاف کو مسلسل دباؤ میں رکھیں بلکہ اُنہیں اگلے انتخابات میں اسی طرح کامیابی دلائیں جس طرح 2018 ء میں دلائی تھی۔ اس کے صلے میں عمران خان نے جنرل فیض کو نومبر 2022 میں آرمی چیف بنانے کا وعدہ کررکھا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے بخیے ادھڑنے سے حالیہ بحران نے سر اُٹھا لیا۔

RelatedPosts

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

قمر باجوہ اور عمران خان کے باہمی الزامات پر تحقیقاتی کمیشن بننا چاہئیے

Load More

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عین ممکن ہے عمران خان اور جنرل فیض کو اس سوچ نے پریشان کردیا ہو کہ جنرل باجوہ اگلے سال ایک مرتبہ پھر مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں۔ سازش کی تھیوری ارزاں کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر جنرل باجوہ توسیع چاہتے ہیں اور عمران خان اُنہیں دے دیتے ہیں تو اس سے جنرل فیض کے عزائم پر پانی پھر جائے گا۔ لیکن اگر عمران خان جنرل باجوہ کو توسیع نہیں دیتے تووہ ممکنہ طور پر کوئی سیاسی داؤ کھیل سکتے ہیں (آئی ایس آئی کے ذریعے یا اگلے سال عام انتخابات میں)۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یقینی بنائیں گے کہ عمران خان کے جانشین سے توسیع ملازمت لیں، خاص طور پر اگر اس کی تخت نشینی میں ان کوئی کردار ہوا۔ اس صورت میں عمران خان اور جنرل فیض، دونوں کے عزائم چکنا چور ہو جائیں گے۔ اس لیے دونوں کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے کہ وہ آئی ایس آئی کا کنٹرول سنبھالے رکھیں تاوقتیکہ اُن کی پوزیشن مستحکم ہوجائیں۔

لیکن سازش کی تھیوریاں ایک طرف، کچھ ٹھوس وجوہات ہیں کہ آخرکار اسٹبلشمنٹ کے قائدین عمران خان کے خلاف جنرل باجوہ کے پیچھے کیوں کھڑے ہیں۔ ایک وجہ تو حزب اختلاف بالعموم اور نواز شریف اور مریم نواز بالخصوص ہیں جوعوام کی بڑھتی ہوئی پریشانی کا رخ عمران خان کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی طرف موڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اب اسٹبلشمنٹ عوامی ناراضی کی تمازت کو محسوس کررہی ہے۔ اور اس کی وجہ آئی ایس آئی کا زور زبردستی ایک غیر مقبول حکومت کو عوام پر مسلط کرنا اور کیے رکھنا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ میں تھری سٹار جنرلوں کو خوف ہے کہ اگر جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بنا دیا جاتا ہے تو وہ اگلے چھ سال تک عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اس سے ناصرف اُن کی آگے بڑھنے کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا بلکہ اس اہم ادارے کی ساکھ مزید خراب ہوگی۔

موجودہ بحران نے سٹیک ہولڈرز کو پیش آنے والی مشکلات سے جنم لیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیڈر چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی انتہائی غیر مقبول ہوتے ہوئے عمران خان کی کھل کر اور اکثر اوقات جارحانہ سیاسی حمایت کرنے سے قدم پیچھے ہٹا کر انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے جنرل فیض حمید کو پشاور میں گیارویں کور کی کمان کرنے بھیجنے اور اُن کی جگہ جنرل ندیم انجم، موجودہ کور کمانڈر کراچی، کو ڈی جی آئی ایس آئی نامزد کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک عمران خان بطور وزیراعظم جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی نامزدگی کا حکم نامہ جاری نہیں کرتے، جنرل فیض حمید، جنرل باجوہ کے حکم کے مطابق اس منصب سے سبکدوش ہو کر گیارویں کور میں نہیں جا سکتے۔

وزیراعظم حکم نامہ جاری کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے۔ صورت حال خطرناک اس لیے ہوگئی ہے کیوں کہ طرفین اپنا اپنا موف کھل کر سامنے لے آئے۔ اب دونوں میں سے کوئی بھی قدم پیچھے ہٹا کر اپنی طاقت اور اختیار کھونا نہیں چاہے گا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی سویلین حکام سے ٹکراؤ ہوتا ہے، اسٹبلشمنٹ ہمیشہ جیتی ہے۔ تو پھر عمران خان نے اپنے طاقتورترین حامی کو اپنے ممکنہ حریف میں کیوں تبدیل کرلیا ہے؟ کچھ افراد دلیل دیتے ہیں کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ یہ اُن کی پہلی اور آخری مدت کی حکومت ہے۔ اس لیے اُنہوں نے انتخابات میں ذلت آمیز شکست کھا کر گمنامی کی دھند میں غائب ہونے کی بجائے ”سویلین بالا دستی“ کے نام پر قدم جما کر لڑنے اور سیاسی شہید بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ عمران خان کے اعتماد کی وجہ یہ یقین ہے کہ وہ اپنی روحانی پیر اور اہلیہ کی سیاسی رہنمائی کی وجہ سے اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں۔

بے شک ”سویلین بالا دستی“کا اس صورت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے تصورات کے حوالے آئینی جمہوریتوں میں ہوتے ہیں جہاں جمہوری اور آئینی اداروں کا دفاع سولین کرتے ہیں، نہ کہ جہاں فراڈ اور انتخابی دھاندلی کے ذریعے قائم کردہ ہائبرڈ بندوبست میں ایک انتہائی خود سر اور انا پرست وزیر اعظم کو مسلط کر دیا جائے جو ریاستی اداروں، جیسا کہ ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب، آئی ایس آئی، آئی بی کے ذریعے تمام جمہوری اور سیاسی اپوزیشن کو کچلنے پر تل جائے تاکہ وہ مطلق العنان حکمران بن جائے جو کسی کو جوابدہ ہو اور نہ کوئی اس کا مخالف ہو۔

بالکل یہی کیس نواز شریف کا بھی تھا جنہوں نے 1997-99 ء میں اپنی دوسری مدت کے دوران امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے اپنے من پسند آرمی چیف کو نامزد کیا تھا۔

اب ہمارے سامنے کون سا راستہ ہے؟ ایک تو یہ کہ عمران خان یا جنرل باجوہ اپنی انا کو ایک طرف کرتے ہوئے دوسرے کی بالا دستی قبول کر لیں۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ جنرل باجوہ کے پیچھے تمام فوج متحد ہوکر کھڑی ہے جبکہ عمران خان کو کمزور سا سویلین سہارا بھی حاصل نہیں۔

درحقیقت اگر عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو اُنہیں بھی 1999ء میں نوازشریف کی طرح اس کی بہت بھاری ذاتی اور سیاسی قیمت چکانی پڑے گی۔ اسٹبلشمنٹ کے پاس ہمیشہ آپشن ہوتے ہیں، چاہے قانونی طور پر ایسا ممکن نہ ہو۔ کیوں کہ اس کے پاس جسمانی طاقت ہوتی ہے۔ نہ تو 1977ء میں جنرل ضیا نے اور نہ ہی 1999ء میں پرویز مشرف نے سیاسی رہنماؤں کو منصب سے ہٹانے کے لیے اپنے سامنے دستیاب آپشن کا بغور جائزہ لینے کی زحمت کی تھی۔

اس وقت تو عمران خان انتہائی غیر مقبول ہیں اور عوام میں مقبول حزب اختلاف اُن کے اقتدار سے الگ ہونے کی دعائیں کررہی ہے۔ چاہے اُنہیں جائز وناجائز، کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جائے۔

بد قسمتی سے عمران خان نے بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنا ضروری سمجھا ہے۔ پہلے تو اُنہوں نے اسی اسٹبلشمنٹ کو زک پہنچانے کی کوشش کی جو اسے اقتدار تک لائی تھی اور اسے اب تک سہارا دے کرقائم رکھا تھا اور دوسرے یہ کہ اس بحران کو طوالت دیتے ہوئے بد اعتمادی اور شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر لیا۔ اسٹبلشمنٹ بہرحال خیمے میں داخل ہونے والا ہاتھی ہے، اور ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔

اب عمران خان کے سامنے ایک کھائی ہے، جس میں انہیں ہر صورت اترنا ہے۔ اپوزیشن پوری کوشش کرے گی کہ اس ہائبرڈ بندوبست میں پڑنے والی دراڑیں گہری ہوتی جائیں۔ یہ بھی فطری بات یہ ہے کہ جو ریاستی ادارے، جیسا کہ عدلیہ، جو عمران خان کی انگلیوں کے اشارے پر چلتے ہیں، بدلتی ہوئی ہوا کا رخ پہچان لیں گے؟ تو کیا جب تحریک انصاف کی حکومت کو انتہائی ضرورت ہے، اسٹبلشمنٹ اس کے دفاع کے لیے کھڑی ہوگی؟

Tags: جنرل باجوہجنرل فیض حمیدعمران خاننجم سیٹھینیا دور اردو
Previous Post

بھارتی کرکٹ بورڈ نے رمیز راجہ کو آئی پی ایل 2021ء کا فائنل دیکھنے کی دعوت دے دی

Next Post

لاہور کے طالبعلم نے ”نقلی پستول” دکھا کر انٹرپول کی دوڑیں لگوا دیں

نجم سیٹھی

نجم سیٹھی

نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

by طالعمند خان
جنوری 26, 2023
0

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات...

Load More
Next Post
لاہور کے طالبعلم نے ”نقلی پستول” دکھا کر انٹرپول کی دوڑیں لگوا دیں

لاہور کے طالبعلم نے ''نقلی پستول'' دکھا کر انٹرپول کی دوڑیں لگوا دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In