تبدیلی کے دعویدار حکمران، جو آج تک یقین نہ کر سکے کہ وہ صاحبِ مسند ہیں یا اپوزیشن میں

تبدیلی کے دعویدار حکمران، جو آج تک یقین نہ کر سکے کہ وہ صاحبِ مسند ہیں یا اپوزیشن میں
پچھلے تین سالوں سے ملک نے بحران کی جو صورت دیکھی ہے اس نے مایوسی کا کینوس وسیع تر کر دیا ہے۔ افراد کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے والے مدعیوں نے افراد کو انقلاب کا وہ چہرہ دکھایا ہے جس کی تحسین کرنے کی بجائے مذمت کرنا بھی بہت چھوٹا لفظ محسوس ہوتا ہے۔ تبدیلی کی علمبردار جماعت نے آج تین سال گذرنے کے بعد بھی یہ یقین نہیں کیا کہ وہ صاحب مسند ہیں یا ابھی بھی اپوزیشن میں۔ بدقسمتی سے ایک ایسی حکومت کو عوام نے ملک کی ذمہ داری سونپ دی ہے جسے ابھی تک خود کو حکمران جماعت سمجھنے کا سلیقہ ہی نہیں آیا۔ ان کی کارکردگی اور عوامی مسائل سے ناواقفیت یا اسے یوں کہئے کہ صرف پچھلی حکومتوں کو گالی دینے میں مہارت کے علاوہ ان میں ملکی امور چلانے کی کوئی بھی خوبی پیدا نہیں ہوئی۔

یورپی تاریخ سے آشنا سمجھ بوجھ کے خود داعی صاحب دل گردہ جگر جنھیں آج بھی عوام کا درد ان سارے اعضا میں محسوس ہو تا ہے۔ شاید لفظوں کی مسیحائی کو وہ دنیا کا سب سے اعلی طریقہ علاج سمجھتے ہیں۔ اس لئے عمل سے کوسوں دور صرف تقریروں کے دم پر عوامی دل جیتنے والے مذکورہ صاحب ابھی تک 2013 سے 2018 تک کے سحر سے نکل ہی نہیں سکے۔ آج بھی قبلہ جب تقریر کرتے ہیں تو ہر بڑی ناک والے شخص کو دھرنوں میں خطاب کرنے والے لیڈر کی بو آتی ہے۔ یہ بات ہم جیسے عام لوگوں کی نہیں حضرت کو خود بھی یقین نہیں کہ وہ اس ملک کے "آقا" ہیں۔ اپنے عالیشان محل میں بیٹھے ٹیلی ویژن پہ کوئی ظلم پر مبنی سین دیکھ کر اگر کبھی شکستہ دل ہوں تو خاتون خانہ کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ اب آپ وزیر اعظم ہیں۔

دکھ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ چار سو انکے اپنے بیانیے کی رو سے مافیا ہیں۔ مگر وہ ایسی سلیمانی ٹوپی اوڑھے ہیں کہ کسی کو بھی نظر نہیں آتے۔ صاحب کی تقریروں میں ہمیشہ چینی مافیا، لینڈ مافیا، ہر قسم کے مافیا کا ذکر کچھ ایسے درد مندانہ انداز میں ہوتا ہے کہ ہر پی ٹی آئی کا کافر انکی بصیرت اور اعلیٰ اقدار پر ایمان لے آتا ہے۔ مگر یہ ایمان پانی کے بلبلے سے زیادہ دیر زندہ نہیں رہ پاتا۔ ایسے لوگوں کے ایمان کی بنیادی تشنگی باتوں سے نہیں دور ہو پاتی۔ وہ عمل کی بات سننا چاہتے ہیں اور صاحب کو عمل سے چڑ ہے۔ اور جب عمل کی بات کی جائے تو وہ اپنے مخصوص انداز میں کندھے اچکائے یہ کہہ کر بات سمیٹ دیتے ہیں کہ "ہم کیا کر سکتے ہیں"۔ ان کے کچھ نہ کر سکنے کی وجہ سے آج پاکستان میں قانون نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی۔

نتیجہ ورلڈ جسٹس رول آف لاء کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان حصول انصاف اور قانون کی بالا دستی میں 139 مملک کی صف میں اللہ کے فضل سے 130 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ لوگ صرف باتوں کو ہی اپنا دین و مذہب بنائے بیٹھے ہیں اور عمل کی بات پر انکی نازک طبع پر کچھ ایسی چوٹ پڑتی ہے کہ یہ ایک دم سے چیخ اٹھتے ہیں کہ میڈیا ہمارے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اب انکی نظر 23 کا الیکشن ہے بقول انکے کہ یہ صفائی سالوں کا وقت مانگتی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ مہینوں کے سفر سے سالوں کے سفر پر گامزن ہوئے ہیں اور میر قافلہ پتہ نہیں اس کاروان کو باتوں کی کس منزل تک لے جانا چاہتا ہے اب اللہ ہی جانے۔

ریاست مدینہ کے مدعیوں کی ذرا عیاشی کا حال ملاحضہ ہو کہ آج کل پنجاب کابینہ میں یہ شنید ہے کہ 37 میں سے 36 وزیروں کی نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ جس کے لئے پندرہ کروڑ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ اور عوام کو کفایت شعاری کا ایسے درس پڑھایا جا رہا ہے کہ آپ بھوکے مرتے ہیں تو مریں۔ روز کہیں نہ کہیں سے ایسی دلدوز خبریں مل رہی ہیں جن کو پڑھ کر کلیجہ منہ کو آجا تا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خاندان نے بچوں سمیت خود کشی کر لی۔ ان بے ضمیر لوگوں کو یہ بات شاید یاد نہیں کہ یہ جس ریاست کی بات کرتے ہیں۔ اس ریاست کے ایک امیر نے یہ فرمایا تھا کہ میری ریاست میں اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاس سے مر گیا تو یہ عمر بروز محشر خدا کو جواب دہ ہوں گا۔

وزیر اعظم صاحب اپنی ریاست بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر پہ نکلتے ہیں اور اپنے آفس یوں شان سے پہنچتے ہیں جیسے اس ملک کی ذمہ داری انھوں نے اس احسن طریقے سے اٹھائی ہوئی ہے کہ ہر شخص خوشحالی کے مارے اپنی کھلی باچھیں تا دیر اپنی اصل حالت میں نہیں لا سکتا۔ حضور کی کابینہ پیٹرول کے بڑھنے پر یہ بیان داغتی پھرتی ہے کہ خطے میں آج بھی پیٹرول کی قیمت پاکستان میں سب سے کم ہے۔ ذرا ان سے یہ پوچھیں کہ وہاں عام آدمی کی آمدنی کتنی ہے۔

پنجاب میں جب 2011 میں ڈینگی وائرس نے اپنا سر اٹھایا اور اسے جس انتظامی طریقے سے شہباز شریف کی حکومت نے شکست دی۔ میں اس کی تفصیل میں زیادہ نہیں جانا چاہتا۔ ہر گھر میں اس موسم میں ڈینگی سپرے اور ڈینگی آگاہی مہم پورے خشوع وخضوع سے چلتی تھیں۔ لیکن 2018 کے بعد ہر وہ اچھے کام رک گئے ہیں جو اس قوم کے لوگوں کی زندگی کے ضامن تھے۔ کرپشن سے لے کر انتظامی بدامنی تک ہر اس چیز نے فروغ پایا ہے جو بقول شخصے اپوزیشن کے وقت جنھیں لے کر انکی دوسری حکومتوں پر بے وجہ تنقید تھی۔ نتیجہ آج ہر وہ شخص صادق و امین قرار پایا جا رہا ہے جن پر انھوں نے کرپشن کے بے وجہ الزام لگائے تھے۔ اس ضمن میں این سی اے برطانیہ کی رپورٹ شہباز شریف کے حق میں ہم سب کے سامنے ہے۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ برطانوں عدالت نے سابق وزیر خزانہ پر بے بنیاد الزامات جیسے پاکستان سے پیسہ چرانے، خفیہ اکاونٹ رکھنے پر فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن کو حکم دیا کہ ان سے معافی مانگے اور بار بار معافی نامہ اپنے میڈیا ہاؤس سے نشر کرے۔

پاکستان میں عوام کو بے یارو مددگار چھوڑنے کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر موجودہ تین سالوں میں مہنگائی اور معاشی بد امنی کا جو مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے آج تک ہم واقف نہ تھے۔ بجلی کے نرخوں میں سالوں پر نہیں مہینوں پہ بھی نہیں دنوں میں اضافہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ "دی اکانومسٹ" کی رپورٹ نے پاکستان کو دنیا کا چوتھا مہنگائی کے اعتبار سے ملک قرار دے دیا ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کا نمبر سولہواں ہے جہاں مہنگائی کی شرح 4.3 فیصد ہے۔ بد قسمتی سے ہر ماہ عالمی سطح پر پاکستان کی عظمت کا گراف نیچے آتا جا رہا ہے۔ اور کابینہ بقول شاعر؛ "مطمئن ایسے ہیں جیسے ہوا کچھ بھی نہیں"۔ بے ضمیری اور بے مروتی کا عالم دیکھیے کہ اعلی تراش خراش کے سوٹوں میں ملبوس یہ بے رحم اور ظالمانہ اوصاف رکھنے والے حکمران خود کو آپﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے نقش قدم پر چلتا ہوا مانتے ہیں۔

فلسفی کارل مارکس نے کہا تھا کہ؛ "جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ وقت ناجائز کو جائز بناتا ہے وہ اس بات کا ذرا جواب دیں کہ ایک گناہ کو نیکی بننے میں کتنا وقت لگتا ہے اور ایک غیر قانونی اور ناجائز سودا کتنے عرصے میں جائز اور قانونی بن جاتا ہے"۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس روئے زمیں پر کچھ ایسے لوگوں نے بھی آنے والے وقتوں میں آنا ہے جو یہ روش اپنائیں گے کہ اگر اقلیت میں ہیں اور اقتدار نہیں ملا تو ہر بات غلط اور اگر اقتدار مل جائے تو ہر غلط بات صحیح ہو جاتی ہے۔ کیونکہ سیاسی بیان بازی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔

ایک جگہ یہ فرمان جاری ہوا تھا کہ "اسرائیلی وزیر اعظم" کو پولیس نے صرف اس وجہ سے شاملِ تفتیش کیا تھا کہ اسے جو تحائف ملے تھے اس نے کیوں چھپائے۔ آج یہی لوگ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر تحائف دکھا دیے جائیں تو ملکی وقار خطرے میں پڑ جائے گا۔ کوئی ان کو بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا کے مصداق بیرونی دوروں پہ جو آپ نے بے تحاشا قوم کا سرمایہ خرچ کر کے یہ تحائف لیے ہیں یہ آپ کو نہیں آپ کے منصب کو دیے گئے ہیں اور آپ کا منصب عوامی منصب ہے۔ نہ کہ آپ کو اس چیز سے استثنیٰ حاصل ہے کہ عوام ہر دورے سے واپسی پر آپ کی مٹھی میں بند چیزوں پہ سوال نہیں اٹھا سکتی۔

بیرونی دوروں سے یاد آیا صاحب یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی پروٹوکول نہیں لوں گا کوئی بیرونی دورہ نہیں ہو گا اور اگر ہوا تو عوامی طرز کا ہو گا۔ یہ نادر فرامین اب کے تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں مگر ہمیں تو "شمس بازغہ" کی طرح یاد ہیں۔ مقام استعجاب ہے کہ یہ جس ریاست کی مثال اپنی ہر تقریر میں دیتے ہیں اس ریاست کے امیر المؤمنین نے صرف اس وجہ سے ایک محفل میں کھڑے ہو کر ایک صحابی کو جواب دیا تھا کہ میرا قد چونکہ بڑا ہے اور مجھے جو کپڑا ملا تھا اس سے میری قمیص نہیں بن سکتی تھی۔ مگر میرے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا دے کر یہ پوشاک بنوانے میں مدد دی۔ اب مجھے اس وقت سے ڈر لگتا ہے کہ کسی روز یہ لوگ یہ نہ کہنا شروع کر دیں ہم نے جس مثالی ریاست کی بات کی ہے وہ سیاسی بیان سے زیادہ نہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سوچیں کہ یہ ہماری روایات اور اقدار کے ساتھ کتنا بڑا کھلواڑ ہو گا؟

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔