ملک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، شطرنج کے کھلاڑی اپنی چالوں میں مگن ہیں

ملک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، شطرنج کے کھلاڑی اپنی چالوں میں مگن ہیں
سن ۱۹۷۷ میں بنے والی ایک انڈین فلم” شطرنج کے کھلاڑی” کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ ہندوستان میں انگریزوں کی گرفت مظبوط ہوتی جا رہی تھی جبکہ وہاں کے بااثر نواب شطرنج کھیلنے میں مصروف رہے۔ انہیں اپنے ملک، خاندان اور عوام سے زیادہ شطرنج کے کھیل میں دلچسپی تھی، وہ گھنٹوں، دنوں، مہینوں شطرنج کی چالوں پر بحث کرتے رہتے۔ ان کا کھیل، ان کی چالیں ، ایک دوسرے کو زیر کرنے کے داؤ پیچ چلتے رہے ۔ وقت ہاتھوں سے نکلتا رہا اور آخر کار پورا ہندوستان انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا۔

اگر آج ہم اُس فلم کا موازنہ پاکستان کے حالات سے کریں تو شاید بہت کچھ بہ آسانی سمجھ میں آجائے۔ ایک جانب پاکستان پر اربوں ڈالر کا قرضہ ہے، ناانصافی اپنے عروج پر ہے، معاشی تباہی شروع ہو چکی ہے، کرپشن، کمیشن خوری بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مہنگائی کا جن عوام پر قیامت بن کرستم ڈھا رہا ہے۔ تو دوسری جانب ریاست میں کسی بھی قسم کا اثر و رسوخ رکھنے والے اپنے ذاتی مفادات، خود غرضانہ عزائم ، محدود سوچ ، اناپرستی ، دولت اور طاقت کی ہوس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔

ایک ایسا ماحول بن چکا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کوئی عزت نہیں، کوئی ہمیں دھشتگرد کہتا ہے تو کوئی ہمیں بھیکاری کے نام سے پکارتا ہے۔ آج پوری دنیا میں پاکستان ایک بدترین اور گھٹیا ترین ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اب دنیا کھل کر پاکستان کے مستقبل پر بات چیت کی جا رہی ہے۔ اس ریاست کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب پاکستان پر وہ وقت آن پہنچا ہے جب ہم سب سر جوڑ کر ان تمام مسائل کو حقیقی طور پر حل کرنے کیلئے راہیں تلاش کریں، قانون کی بالادستی قائم کریں، ریاست کے نظام کو راہ راست پر لانے کیلئے کردار ادا کریں۔ دنیا میں اپنی عزت اور وقار کی بحالی کے منصوبے بنائیں تاکہ اس ریاست کا وجود قائم رکھا جا سکے لیکن بجائے معاملات ٹھیک کئے جائیں، اصلاح کی جائے یہاں بھی شطرنج کا وہی پرانا کھیل زور و شور سے جاری ہے۔

تمام ریاستی ادارے، حکومت اور اپوزیشن، سب اپنی اپنی چالوں میں مگن ہیں۔ ذاتی مفاد اور ذاتی ترجیحات سب سے زیادہ اہم بن چکے ہیں۔ سب ایک دوسرے کے خلاف اپنی چالیں چلنے میں مگن ہیں۔ وزیر کی دلچسپی اپنے بادشاہ کو زیر کرنے میں ہے۔ بادشاہ کی دلچسپی اپنے پیادے کو کچلنے میں ہے۔ کوئی بادشاہ کو شہہ دینا چاہتا ہے تو کوئی وزیر کو کھیل سے ہٹھانے کے در پے ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک ایک شاطر، ایک سے بڑھ کر ایک چال۔ آج اس پورے نظام میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس کی ترجیحات میں اس ملک کا مستقبل اور عوام کی خوشحالی ہو۔

اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھرے اس ملک میں ماسوائے چالبازیوں کے اور کچھ نہیں کیا جارہا۔ اس سارے کھیل میں عوام کی حیثیت ایک مہرے سے زیادہ نہیں ہے اور انکا استعمال بھی بلکل مہروں کی طرح سے ہی کیا جا رہا ہے۔ سب اُنھیں اپنے مفادات کیلئے استعمال تو کر رہے ہیں لیکن جب عوامی مفادات کی باری آتی ہے تو جھوٹے وعدے اور سنہری خوابوں سے کام چلا لیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کو شطرنج کی بساط سمجھ کر اپنی چالوں میں مگن شخصیات کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں، عوام کس حال میں ہے اور ریاست کا کیا حشر ہونے والا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم تاریخ کے اُس موڑ پر واپس آگئے ہیں جہاں ریاست سے زیادہ شطرنج کی چالیں اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ آج گھنٹوں، دنوں اور مہینوں چالیں زیر بحث ہیں اور سب کی تمام تر توجہ اپنی اپنی چالوں پر ہی ہے۔ وقت نکلتا جا رہا ہے، وقت کا سورج غروب ہونے والا ہے ، آگے صرف اندھیرا ہے بلکہ ہماری نسلوں کا کوئی روشن مستقبل دیکھائی نہیں دے رہا لیکن اُن کا کھیل، اُن کی چالیں، ایک دوسرے کو زیر کرنے کے داؤ پیچ زور و شور سے جاری ہیں۔ جب ساری بساط ہی الٹ پلٹ جائے گی تو پھر نہ رہے گا وزیر ، نہ ہی رہے گا بادشاہ اور نہ ہی رہے گا اُن کا یہ کھیل۔

اس وقت جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب بغیر جوتوں کے مدینہ کی سر زمین پر اُترے ہیں ، اس خبر کے بعد فلم “ شطرنج کے کھلاڑی “ کا ایک کردار میرے دماغ میں گھوم رہا ہے اور میرے چہرے پر ایک اُداس سی مسکراہٹ ہے۔

مصنف عرصہ 22 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔