ریڈیو پاکستان ہر وقت سوگ میں کیوں ہے؟

ریڈیو پاکستان ہر وقت سوگ میں کیوں ہے؟
ریڈیو اس دورِ جدید میں بھی خبروں، معلومات اور موسیقی کے لیے اپنی اہمیت اور مقبولیت کی وجہ سے کئی علاقوں میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ خاص کر بلوچستان میں جہاں اکیسویں صدی میں بھی کئی علاقے انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ایسے میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے واحد ذریعہ نشریات ریڈیو ہے۔ بی بی سی اردو کی ریڈیو پر نشریات بند ہونے کا شاید سب سے بڑا صدمہ بلوچستان کے لوگوں کو ہوا۔

دل جان شاہ ریڈیو پاکستان گوادر میں کمپیئر ہیں جس نے بی بی سی کی بندش پر مکران کے علاقے دشت سے ایک ڈاکیومینٹری فلم بنایا تھا جس میں بی بی سی کی اردو نشریات اور خبروں سے محروم لوگوں کا انٹریو کیا گیا تھا۔ اس ڈاکیومینٹری میں لوگوں کے تاثرات اور مطالبات تو شاید اب پورے نہ ہوں مگر اب خبروں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ موسیقی، معلومات اور اپنی مادری زبان میں نشر ہونے والے پروگرامز سے بھی محروم ہیں۔ کیونکہ بی بی سی کی نشریات کے بعد ان کے لیے ریڈیو پاکستان گوادر ہی واحد ذریعہ تھا جس کے ساتھ ان کا لگاؤ ایک خاندان یا درسگاہ کی حد تک ہے لیکن اب ان کے بقول ریڈیو گوادر سوگ میں ہے۔ اکثر اوقات ریڈیو کی نشریات نہیں آتیں اور اس کی جگہ کوئی عربی یا ہندی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔



قمر بدل ریڈیو پاکستان گوادر کے تمام پروگرام بڑے شوق سے سنتے تھے۔ ان کے گاؤں کے تقریباً کوئی پچیس تیس لوگ اکھٹے ریڈیو کے پروگرامز سنتے اور خطوط و میسجز کے ذریعے "ریک پُشت پسنی ریڈیو کلب" کے نام سے پروگرامز میں حصہ بھی لیتے تھے لیکن اب انھیں مایوسی ہے۔

وہ کہتے ہیں " ریڈیو پاکستان گوادر کی ہی بدولت میں نے بلوچی لکھنا، پڑھنا سیکھ لیا ہے۔ ہم تمام دوست اور گھر والے ہر پروگرام کے لیے بے صبری کے ساتھ انتظار کرتے تھے۔ لیکن اب جب بھی ریڈیو آن کروں تو لگتا ہے جیسے ریڈیو پاکستان مسلسل سوگ میں ہے اور بند ہے"۔ ریڈیو پاکستان گوادر کی نشریات جنریٹر نہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہیں۔ اسی لیے قمر کی طرح بہت سارے سامعین نے اب تو ریڈیو پاکستان گوادر کی فریکوینسی پر دلبرداشتہ ہو کر آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ ان کے بقول اسی فریکوینسی پر عربی اور ہندوستان کے ریڈیو چینلز کی آوازیں تو آتی ہیں مگر ریڈیو پاکستان گوادر کی نہیں آتی۔



دل جان شاہ ہفتے میں دو پروگرامز کرتے ہیں لیکن اب انھیں یہ بھی صحیح سے یاد نہیں آ رہا ہے کہ انھوں نے آخری پروگرام کب کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنے پروگرامز کے دن ریڈیو کے گیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں جواب ملتا ہے کہ بجلی نہیں ہے۔ دل جان شاہ کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ ان کے بقول وہ جس امید کے ساتھ اپنے تمام کام چھوڑ کر پروگرام کرنے آتے ہیں۔ اسی امید اور بے چینی کے ساتھ سامعین بھی انتظار میں ہوتے ہیں مگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پروگرام نہیں ہوتے۔ دل جان سمیت دوسرے کمپیئرز کو اس بات کی بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے جب پروگرام والے دن سامعین اپنے موبائل پیغامات کئی گھنٹے پہلے بھیجتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ آج ان کا میسج ان کے نام کے ساتھ پڑھا جائے گا مگر پروگرام ہی نہیں ہوتا۔

زرخان داد بھی ریڈیو پاکستان گوادر میں پروگرام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "ہمارے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں گاؤں میں موبائل نیٹ ورکس نہیں آتے تو سامعین دور کہیں کسی ٹیلے یا ایسی جگہ پر جاتے ہیں اور پروگرام سے پہلے اپنے میسجز بھیجتے ہیں تاکہ ان کا میسج پروگرام میں شامل ہوسکے۔ لیکن یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ پروگرام نہیں ہوتا اور ان کے میسجز کئی امیدوں و ارمانوں کے ساتھ نشر نہیں ہو پاتے"۔

ریڈیو پاکستان گوادر ایک وقت میں اپنے پروگرامز کی وجہ سے اورماڑہ سے لیکر تمام ضلع گوادر، ضلع کیچ کے علاقے دشت اور سرحد پار ایران کے علاقوں میں بہت مقبول ہوا کرتا تھا جہاں بلوچی زبان کے نامور ادیب، فنکار اور نوجوان صدا کار مقبول ترین پروگرامز کیا کرتے تھے مگر اب جیسے کوئی دور دراز بلوچستان کا کوئی گھوسٹ پرائمری اسکول جو شاید سرکاری کاغذات کی حد تک موجود ہو۔

ریڈیو کے ایک اور کمپیئر بتاتے ہیں کہ بڑی عید کے بعد سے اب تک انھوں نے شاید کوئی ایک پروگرام کیا ہو۔ وہ اپنے کچھ چیکس دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ یہ چیکس کن پروگراموں کے ہیں کیونکہ ان کے بقول جب پروگرامز ہی نہ ہوں اور چند سو روپوں کا چیک لیتے ہوئے نہ ان کا ضمیر راضی ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی زبان میں پروگرامز کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ وہ کہتے ہیں"ریڈیو کی حالت اور نشریات پہلے جیسے بحال ہوں تو ریڈیو پاکستان چندے کے طورپر ہمیں یہ چیکس نہ دے بلکیں انھیں ہماری طرف سے تعاون قبول کرے۔"



اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان گوادر کے اس وقت کے پروگرام مینیجر راشد اشرف سے جب پوچھا گیا کہ ریڈیو پاکستان گوادر کی یہ حالت کب سے ہے؟ تو انھوں نے مشورہ دیا کہ پروڈیوسر شکیل احمد سے پوچھا جائے کیونکہ انھیں آئے ہوئے ابھی سال بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

واضح رہے اس سے پہلے ریڈیو پاکستان گوادر کے سب ہی اسٹیشن ڈائریکٹر زیادہ تر غیر مقامی تھے جو بمشکل مہینے میں کوئی ایک ہفتہ بھی گوادر میں گزارتے تھے۔ کچھ تو سیکیوریٹی کا جواز بنا کر نہیں ٹہرتھے اور کچھ بنیادی ضروریات کا نہ ہونا جیسے پانی و بجلی وغیرہ۔ اسی لیے مقامی زبان و ادب اور فنکاروں کے لیے ریڈیو پاکستان روز بہ روز زوال کی طرف جاتا گیا اور اب عالم یہ ہے کہ روزانہ کی نشریات میں شاید ہی کسی دن کسی ایک شفٹ کے پروگرامز بھی ہوتے ہوں۔

پرڈیوسر شکیل احمد بتاتے ہیں کہ ریڈیو کا جنریٹر 2018 سے خراب ہے جس سے پروگرامز بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور انھیں یہ احساس ہے کہ سامعین کا ریڈیو کے ساتھ ایک گہرا رشتہ اب کمزور ہوچکا ہے اور سامعین ریڈیو کی نشریات سے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں۔ ریڈیو پاکستان گوادر میں اس وقت تقریبا کوئی 34 سے زیادہ اسامیاں خالی ہیں جن کے لیے مقامی نوجوان اہل بھی ہیں لیکن اسلام آباد کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے آج یہ قومی ادارہ زبو حالی کا شکار ہے۔

مقامی عوامی نمائندگان جو اسلام آباد و کوئٹہ میں ہوتے ہیں انھیں شاید ہی پتہ ہو کہ ریڈیو پاکستان گوادر کا کوئی اسٹیشن ان کے شہر میں ہے جو اس کے لیے آواز بلند کرتے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے سنیئٹر، ایم این اے، ایم پی اے سمیت کئی دوسرے سیاسی و عوامی نمائندوں کے ٹوئیٹر اکاؤنٹس اور مقامی اخبارات میں بیانات دیکھنے سے کہیں بھی ریڈیو کی بدحالی سے متعلق ان کا ایک بھی بیان نہیں ملتا۔ اگر ریڈیو ایک قومی ادارہ نہ ہوتا تو شاید یہ عوامی نمائندے ویسے ہی بولتے جیسے وہ اپنے فنڈز و ٹینڈرز وغیرہ کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔



جبکہ اسلام آباد کی نظر اندازی کا اندازہ کوئی اس بات سے ہی لگا سکتا ہے کہ کرونا وباء کے آتے ہی ریڈیو پاکستان پر کروڈوں پیسے لگا کر ریڈیو اسکول کے پروگرامز پیش کیے جارہے مگر یہ پروگرامز اور ان کا نصاب شاید اسلام آباد و کراچی کے اعلی طبقے کے بچوں کے لیے ہوں لیکن بلوچستان کے دور دراز کے اسکولوں کے بچے تو کیا ہائی اسکولز کے طالب علموں کے لیے بھی نا سمجھ آنے والی ہیں۔ اور ایسے میں یہ ریڈیو اسکول مزید بے سود لگتے ہیں جب متعلقہ اسٹیشنز ہی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوں۔ ریڈیو کے کئی سامعین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا ان کے بچے ان پروگرامز سے مستفید ہورہے ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

ریڈیو بلوچستان کے اکثر علاقوں میں اب بھی معلومات و انٹرٹینمنٹ کا اہم ترین اور واحد ذریعہ ہے لیکن اسلام آباد میں بیٹھنے والوں کے لیے شاید سارا پاکستان وہی ہے جو ان کی زندگی سے مطابقت رکھتا ہو۔ یعنی فور جی انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا پر رات نو بجے کی خبریں اور صبح کا اخبار۔ ایسے میں ریڈیو پاکستان گوادر کے سامعین بی بی سی کی اردو نشریات کے بند ہونے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اب بھی امید لگا سکتے ہیں کہ ریڈیو کی نشریات کئی سال پہلے کی طرح پھر سے آنے لگے گیں اور یہ کئی سال کا سوگ ایک دن ختم ہوگا۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔