وزیر اعظم کو جواب دینا ہوگا کہ ندیم انجم پر کوئی اعتراض نہ تھا تو تین ہفتے معاملہ کیوں لٹکائے رکھا

وزیر اعظم کو جواب دینا ہوگا کہ ندیم انجم پر کوئی اعتراض نہ تھا تو تین ہفتے معاملہ کیوں لٹکائے رکھا
انت بھلا سو بھلا۔ دیکھنے میں تو ایسا ہی لگتا ہے۔ آئی ایس آئی سربراہ کے معمول کے تبادلے کی کہانی جس نے 20 دن سے زائد عرصے کے لئے پوری قوم کو سولی پر ٹانگے رکھا، اور درمیان میں کئی ایسے مواقع آئے جب لگتا تھا کہ ملک کے دو بڑوں یعنی وزیر اعظم اور آرمی چیف میں تصادم ہوا ہی چاہتا ہے اور اب اختیار کا فیصلہ ہو کر رہے گا، بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی۔ آخر میں دونوں کو وہ مل گیا جو انہیں چاہیے تھا لیکن قوم کے تقریباً تین ہفتے ضائع ہو گئے۔ نہ کسی کی ہار ہوئی، نہ جیت۔

لیکن اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو بیچ چوراہے میں یوں پیٹ سے کپڑا اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر دونوں ایک ہی صفحے پر موجود تھے تو خواہ کتنا ہی لمبا وقت درکار ہوتا، انہیں بند کمروں میں بات چیت کر کے اس حوالے سے فیصلہ کر لینا چاہیے تھا۔

6 اکتوبر 2021 کو جب آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز جاری ہوئی جس میں لکھا تھا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو پشاور کور کا کمانڈر بنا دیا گیا ہے، لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کراچی کور کمانڈر سے آئی ایس آئی کے سربراہ بنا دیے گئے ہیں اور دیگر جنرلز کے بھی تقرر اور تبادلے ہوئے ہیں تو لگتا تو یہی تھا کہ روایتی طور پر جو عمومی طریقہ کار استعمال ہوتا ہے، اس کے تمام تقاضے پورے کر دیے گئے ہیں۔

جو صحافی دفاعی امور پر نظر رکھتے ہیں، ان کے مطابق معمول کی کارروائی یہ ہوتی ہے کہ آرمی چیف وزیر اعظم کو تین نام بھیج دیتے ہیں، ان میں سے وزیر اعظم ایک کا انتخاب کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے اور اس کے لئے کسی انٹرویو کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اگرچہ اس بار آئی ایس آئی سربراہ کی تعیناتی کی پریس ریلیز آئی ایس پی آر نے وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن سے پہلے ہی جاری کر دی تھی، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آرمی چیف نے از خود ہی وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر یہ فیصلہ کر لیا تھا۔

 
26 اکتوبر 2021 کو جب یہ نوٹیفکیشن بالآخر جاری ہوا، اس وقت تک صاف ظاہر ہوتا دکھائی دے رہا تھا کہ ایک صفحے کا بیانیہ اب ختم ہی سمجھا جائے۔ اور یہ صورتحال ویسی ہی مضحکہ خیز تھی کہ جب اگست 2019 میں حکومت کے کچھ قانونی شاہینوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

 

لہٰذا میڈیا کے لئے تو یہ فطری تھا کہ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی جب ایک صفحے والی حکومت نے عوامی سطح پر آ کر اس بات کا برملا اعلان کیا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور آئی ایس آئی سربراہ تعیناتی کا کوئی نوٹیفکیشن وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا۔

26 اکتوبر 2021 کو جب یہ نوٹیفکیشن بالآخر جاری ہوا، اس وقت تک صاف ظاہر ہوتا دکھائی دے رہا تھا کہ ایک صفحے کا بیانیہ اب ختم ہی سمجھا جائے۔ اور یہ صورتحال ویسی ہی مضحکہ خیز تھی کہ جب اگست 2019 میں حکومت کے کچھ قانونی شاہینوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

صورتحال میں مزید ابہام وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیانات نے اور پھر ضرورت سے زیادہ متحرک میڈیا نے پیدا کیا جسے ہر تھوڑی دیر کے بعد اندر کی خبریں مل رہی تھیں جن کے مطابق اختلاف آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس قضیے کے ڈانڈے وزیر اعظم کے حالیہ دنوں میں ضرورت سے زیادہ مذہبی اطوار اور فروری 2018 کے بعد سے ان کے 'غیبی مداخلت' میں اعتقاد سے بھی ملا ڈالے۔ اس وجہ سے بھی کہ وزیر اعظم کے مخالفین کے مطابق عمران خان آئی ایس آئی سربراہ کے تقرر و تبادلے کے لئے کسی 'شبھ مہورت' کا انتظار کر رہے تھے۔

حکومت کے حامی اور اس کے مخالفین دونوں ہی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں ایسا لگتا تھا جیسے کسی انہونی کی امید لگائے بیٹھے تھے اور دونوں اطراف کی خواہش تھی کہ حالات کا دھارا ان کے رخ میں مڑ جائے۔

لیکن کم از کم بظاہر کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ لگتا تو یہی ہے کہ وزیر اعظم جیسا چاہتے تھے ویسا ہی ہوا ہے، جو کہ سولین حکومت کی فوج کے اوپر ایک چھوٹی سی فتح تصور کی جا رہی ہے۔ آرمی چیف کو بہرحال یہ وضاحت دینی چاہیے کہ جب وزیر اعظم کے دفتر سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا تھا تو پریس ریلیز کے ذریعے نئے آئی ایس آئی سربراہ کا اعلان کیسے کر دیا گیا؟

وزیر اعظم لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرتے اگر انہیں ان کے حوالے سے کوئی تحفظات ہوتے۔ اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم کی توثیق کے بغیر ہی کراچی کور کمانڈر کا نام دے دیا ہو۔ لہٰذا اختلاف شاید تاریخ پر تھا۔ لیکن تاریخ میں کیا مسئلہ تھا اگر اس میں کوئی شبھ اور اشبھ مہورت والی بات نہیں تھی؟

شاید یہ کوئی بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہو لیکن چونکہ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی میں علامتی اقدامات کو زمینی حقائق پر فوقیت دیتا ہے، ممکن ہے کہ اس کی خواہش رہی ہو کہ امریکی ڈپٹی سیکرٹری خارجہ وینڈی شرمن کے دورۂ پاکستان پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات سے قبل پاکستان کچھ علامتی فیصلے لے۔ اور حقیقی مسائل پر بات چیت کے لئے ہموار ماحول پیدا کرنے کی نیت سے آرمی چیف نے اعتماد کی بحالی کے لئے کچھ اقدامات لینا ضروری سمجھا ہو کیونکہ ان مذاکرات کا اثر دو طرفہ تعلقات، خصوصاً افغانستان پالیسی کے حوالے سے بھی سامنے آنا تھا۔

شاید 5 ستمبر کو کابل کے ایک ریستوران میں آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کی وہ تصویر اور ویڈیو جو میڈیا کی زینت بھی بنی، یہ امریکہ کو بہت ناگوار گزری ہو، خصوصاً کیونکہ اس میں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید بڑے وثوق سے میڈیا کو جنگ سے متاثرہ ملک کے متعلق یہ کہتے دکھائی دیے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

لہٰذا آرمی چیف نے 6 اکتوبر کو فیض حمید کا تبادلہ کر دیا تاکہ علامتی اقدام سے امریکہ کو رام کیا جا سکے لیکن وزیر اعظم نے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے بعد 20 دن تک اس تقرری کو روکے رکھ کر عملی طور پر تبادلے کے اس فیصلے پر عملدرآمد روکے رکھا۔ لیکن وزیر اعظم کو بھی قوم کو یہ بتانا ہوگا کہ اگر ان کو لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا تو انہوں نے نئے آئی ایس آئی چیف کے تقرر کے معاملے کو تین ہفتے تک لٹکا کر کیوں رکھا؟