ریاست مدینہ کا غیر قانونی حلال بنی گالہ اور حرام کچی آبادی

ریاست مدینہ کا غیر قانونی حلال بنی گالہ اور حرام کچی آبادی
پچاس سالہ سیماب بی بی کا تعلق پنجاب کے ضلع خوشاب کے ایک غریب مسیح گھرانے سے تھا۔ پچیس سال پہلے ان کی شادی اسلام آباد کی کچی آبادی میں ایک مقامی شخص سے ہوئی۔ چار بچوں کی پیدائش کے بعد ان کے خاوند نے ان کو چھوڑ کر دوسری شادی کی اور سیماب بی بی اپنے چھوٹے بچوں سمیت اکیلے رہ گئی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے G-11 مرکز میں واقع کچی آبادی میں گزشتہ پچیس سالوں سے رہائش پذیر ہے۔ سیماب بی بی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے اور ان کے دو بچے اسلام آباد کی مارکیٹوں میں گاڑیاں صاف کرتے ہیں۔

سیماب بی بی کے مطابق بچوں کے بڑے ہونے کے بعد ان کی زندگی میں ایک سکون آیا اور ان پر معاشی دباؤ کم ہوا۔ محنت کرکے انھوں نے اسلام آباد کی کچی آبادی میں ایک عارضی خیمہ گھر بنایا اور ان کے لئے کچھ نئی چیزیں خریدیں مگر گزشتہ روز وفاقی ترقیاتی ادارے ( سی ڈی اے) کی جانب سے بتائے بغیر ایک آپریشن کیا گیا اور بلڈوزر سے ناصرف ان کا گھر مسمار کیا بلکہ سامان سمیت ان کے بچوں کے کپڑے اور دیگر ضروریات کے سامان کو بھی روند ڈالا۔



سیماب بی بی کی آنکھوں میں آنسو، چہرے پر غیر یقینی اور بے چینی ہے۔ آبادی کی دیگر خواتین کی طرح سیماب بی بی بھی پریشان ہے کہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے سخت سردی میں کھلے آسمان تلے پتا نہیں کتنی راتیں گزاریں گے۔

سیماب بی بی کہتی ہے کہ اسلام آباد میں سردی ہے اور رات کو موسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ اس لئے چھت چھن جانے کے بعد اب کے بچوں سمیت کچی آبادیوں کے بچے ٹھنڈ کی وجہ سے نہیں سو پائے اور سخت سردی میں رات گزاری اور اب جب ہم سامان واپس ٹھیک کر رہے تھے تو سی ڈی اے والے دوبارہ آئے اور دھمکی دی کہ اگر دوبارہ سے گھر بنانے کی کوشش کی تو آپ کا برا حشر کیا جائے گا۔

سیماب بی بی کہتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری زمین نہیں اور جب بھی حکومت یہاں کچھ تعمیر کریگی تو ہم جگہ خالی کردیں گے لیکن ہم کہاں جائیں اس سخت سردی میں؟ ان کا ماننا ہے کہ چھت فراہم کرنا ریاست کا کام ہے لیکن یہاں ریاست چھت بھی چھین رہی ہے۔



دوسری جانب سی ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ ادارہ جب بھی آپریشن کرنے جاتا ہے تو دو ہفتے پہلے ان کو اطلاع فراہم کی جاتی ہے کہ جگہ خالی کرو لیکن کئی نوٹسز دینے کے باوجود انھوں نے جگہ خالی نہیں کی اور مجبوراً ہمیں آپریشن کرنا پڑا۔ سی ڈی اے کا ماننا ہے کہ اسلام آباد کی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر غیر قانونی قبضہ ہو چکا ہے اور حکومت کے سخت احکامات پر یہ آپریشن کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں سے سرکاری زمین واگزار کی جاسکے۔

چئیرمین سی ڈی اے نے دو ہفتے پہلے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کی گرین بیلٹس پر قبضہ کیا جا چکا ہے اور اس وقت سینکڑوں ایکڑ گرین بیلٹ پر مختلف قبضہ مافیا کا قبضہ ہے اور ہر صورت سرکاری زمین واگزار کی جائے گی۔

اسلام آباد کے G-11 مرکز سے متصل اس کچی آبادی میں 70 سے زیادہ خاندان آباد ہیں جن میں زیادہ تعداد کرسچن کمیونٹی کے مکینوں کی ہے۔ ان کے زیادہ تر مرد شہر میں صفائی کا کام کرتے ہیں جبکہ ان کی خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں۔ کچی آبادی میں زیادہ تر وہ لوگ رہائش پذیر ہیں جن کی اوسط آمدنی انتہائی کم ہے۔ گزشتہ روز وفاقی ترقیاتی ادارے اور اسلام آباد انتظامیہ کے مشترکہ آپریشن میں ستر سے زیادہ کچے مکانات کو ملیا میٹ کیا گیا۔



محمد اسماعیل کا تعلق مسلمان کمیونٹی سے ہے اور وہ دیہاڑی کرکے اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ نیا دور میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم سالوں سے کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان میں زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں کیونکہ بارش اور گرمی دونوں ہمارے لئے تکالیف لاتے ہیں لیکن کیا کریں ہمارے پاس دوسرا آسرا بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب سی ڈی اے کے بلڈوزر یہاں کچی آبادی پہنچے تو ہم نے ان کی منتیں کیں، بزرگ اور خواتین نے جھولیاں پھیلائیں، بچوں نے رونا شروع کیا مگر ان کے رقص کرتے بلڈوزروں نے ہم پر چڑھائی کی، ہمارے گھر برباد کئے اور ہمارا سامان بلڈوزروں کے ٹائروں تلے روندا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ملک اور کیسی ریاست ہے جس میں وزیراعظم عمران خان کو سینکڑوں ایکڑز پر محیط غیر قانونی بنی گالہ اچھا لگتا ہے لیکن غریب کی جھونپڑی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔

عوامی ورکرز پارٹی نے کچی آبادی میں بچوں کے لئے عارضی سکول کا بندوبست بھی کیا ہے اور مختلف اساتذہ بچوں کو کیمپ میں ناصرف درس وتدریس فراہم کر رہے ہیں بلکہ عطیات اور اپنے فنڈز سے کھانا بھی فراہم کر رہے ہیں۔

عوامی ورکرز پارٹی سے منسلک طوبہ سید نے کچی آبادی میں نیا دور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے قانونی طور پر کچی آبادیوں کو نہیں گرا سکتی اور اس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے جس میں انھوں نے سی ڈی اے کو احکامات دیئے تھے کہ کچی آبادی کے حوالے سے لسٹ اپڈیٹ کرکے ان کے ساتھ تعاون کریں مگر اس کے باوجود آبادی کو گرایا گیا۔



طوبہ سید کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا بھی اس پر 2016ء سے ایک سٹے آرڈر موجود ہے جس میں عدالت نے واضح کیا ہے کہ متبادل جگہ فراہم کئے بغیر آپ کسی آبادی کو نہیں گرا سکتے ہیں لیکن سی ڈی اے نے اس کے باوجود کاروائی کرتے ہوئے اس کو گرا دیا جو اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایک دم سے سی ڈی اے کی ٹیمیں آئی اور ان پر قیامت ڈھا دی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں ریکارڈ مہنگائی ہے اور یہاں وہ لوگ رہتے جن کی ماہانہ آمدن بیس ہزار روپے سے کم ہے لیکن عجیب ریاست اور ملک ہے کہ پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی سیکٹر کو تو ایمینیسٹی دے دیتی ہے لیکن ان غریبوں کے لئے کوئی رحم نہیں ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مختلف مقامات پر کچی آبادیاں قائم کی گئی ہے اور سی ڈی اے کی جانب سے مختلف وقتوں میں کچی آبادیوں کے مسماری کی کاروائیاں سامنے آتی ہیں۔ طوبہ سید نے مزید کہا کہ پیر کے روز ایک پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے رکھی جائے گی جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ یا تو کچھ مہلت دے کر سردی گزرنے کا انتظار کیا جائے یا پھر ان کے لئے کوئی دوسرا بندوبست کیا جائے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔