'سلطان مراد' آپ کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی ضد، غصہ اور آپ خود ہیں

'سلطان مراد' آپ کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی ضد، غصہ اور آپ خود ہیں
عثمانیہ سلطنت کےسلطان مراد کو اس کے غصے پر اس وقت کے شیخ الاسلام نے اپنی موت کے فرمان آنے کے بعد ایک بات کہی تھی، وہ بات سلطان کو اپنی زندگی کے آخری دنوں تک بہت تنگ کرتی رہی حتیٰ کہ اس کے اقتدار میں ریاست کو کمزور کرنے والا بھی اس کا غصہ اور ضد ہی تھی۔ شیخ الاسلام کے الفاظ تھے کہ "آپ آج اس نوبت پر صرف اور صرف اپنی ضد اور اپنے اس غصے کی وجہ سے ہیں، جس دن آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی آپ کی سلطنت میں انصاف کا ترازو اپنی جگہ پر آجائے گا، آپ کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا یہ غصہ اور آپ خود ہیں”۔

ہوا بھی کچھ ایسا ہی، سلطان نے اپنے دور میں جتنے معصوموں کی گردنیں اڑائیں، اتنی آج تک کسی سلطان کے دور میں دشمنوں کی بھی نہ اتاری گئی ہونگی۔ نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ اگر سلطان کی ماں اپنے ایک ذہنی معذور بیٹے ابراہیم کو بچانے میں کامیاب نہ ہوتی تو سلطنت عثمانیہ کی نسل بڑھانے کے لیے کوئی مرد باقی نہیں رہ گیا تھا۔ سلطان نے ایک ایک کرکے سب کو ختم کردیا۔

ایک وجہ تو یہ تھی کہ سلطان شدید نرگسیت کا شکارتھا، اپنے علاوہ طاقت کسی دوسرے کے پاس دیکھتا تو اس شخص کا سر کندھوں پر دیکھنا توہین سمجھتا۔ دوسرا اس کو اپنے خلاف بات کرنے والا کوئی بھی شخص پسند نہیں تھا، پھر چاہے وہ شخص شیخ الاسلام ہی کیوں نہ ہو، اس کی گردن اڑانا سلطان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔

ایسا مرحلہ ہر حکمران کی زندگی میں آتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ وہی ایک آخری شخص ہے جو اپنی رعایا کے لیے مسیحا ہے۔ بھٹو سے شروع ہو جائیں، اور عمران خان تک آجائیں، آپ کو یہ بات ہر ایک حکمران میں ملے گی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اس وقت لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے سیاسی منظر میں جب خود کو نہیں دیکھ پاتے تو اپنے بیانات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو نکالے جانے کے بعد ملک رک گیا ہے۔ تمام چیزیں ان کے آنے کے انتظار میں ہیں کہ میاں صاحب آئیں تو ہم آگے بڑھیں۔۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر دور میں تین سال گزرنے کے بعد حکومت اور اداروں میں ایسی ہلچل شروع ہوجاتی ہے؟ اسلام آباد میں ویسے تو سردی بڑھتی جارہی ہے مگر سیاسی موسم گرم ہے اور مزید گرما گرمی کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی آج دن تک اپنی تعریفیں کہنے والوں میں اپنا وقت ضائع کیا، اور وہ یہ تک نہ دیکھ پائے کہ وہ ایک بہت بڑے اور گہرے گڑھے میں گرنے جارہے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہیں گڑھے میں پھینکا جارہا ہے۔ یہ پتہ انہیں تب چلا جب وہ دو بڑی اور سنگین غلطیاں کر بیٹھے ہیں اور اب اس بات پر فکرمند ہیں کہ امور مملکت ان کے ہاتھ سے کیوں نکلتے جارہے ہیں۔ اسی پر اگر جان کی امان پاؤں تو پوچھنا چاہتا ہوں، سرکار امور مملکت آپ کے ہاتھ میں دیے ہی کب گئے تھے؟

حالیہ صورتحال میں خان صاحب کے ہاتھ سے معاملات تب نکلے جب یہ بات تنازعہ بن گئی کہ کالعدم تنظیم سے مذاکرات کون کررہا ہے؟ جیسا کہ سب نے دیکھا کہ ایک طرف حکومت ٹی ایل پی سے سختی سے نمٹنے کے لیے تیار تھی، اور میڈیا مالکان کو ایمبیڈڈ صحافت کرنے پر راضی بھی کر لیا تھا کہ ہم خون بہانے جارہے ہیں، بس ٹی وی پر دکھانا کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف مفتی منیب الرحمان کو کراچی سے بلوا لیتے ہیں۔ یہ بات مولانا بشیر فاروق قادری کی بابت میڈیا کے لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ ملاقات میں کیا کچھ ہوا اور اس میں آرمی چیف کا کیا کردار تھا۔

دلچسپ بات یہ کہ مفتی صاحب حکومتی وزراء کے ساتھ بیٹھنا ہی نہیں چاہتے تھے، انہوں نے شیخ رشید، فواد چوہدری اور نورالحق قادری کے ساتھ بیٹھنے سے یکسر انکار کردیا اور راولپنڈی سے ایک کال جانے پر فوراً کراچی سے اسلام آباد پہنچ گئے۔ فوج کے اس معاملے میں کردار پر صرف وزراء کے ہی نہیں بلکہ وزیراعظم کا بھی منہ اترا ہوا ہے اور مزاج بتارہے ہیں کہ تعلقات تلخی کی جانب ایک قدم اور بڑھ چکے ہیں۔

پہلا قدم ہم ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے اور اب تازہ ترین خبر، آرمی چیف کی تقرری کے لیے پانچ سینئر فوجی افسران کی سمری پر تشویش کے اظہار کو لے لیتے ہیں۔تازہ پیشرفت کے مطابق پہلے چار سینئر ترین جرنیلوں کی لسٹ میں مشہور زمانہ جنرل عاصم منیر کو بھی شامل کرلیا گیا ہے اور اب یہ فہرست پانچ امیدواروں پر مشتمل ہے۔ اس طرح جنرل فیض ان تمام امیدواروں میں سینیارٹی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہیں جب کہ جنرل عاصم منیر پہلے نمبر پر۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کے قریبی وزراء میں سے ایک نے خان صاحب کے کان میں جنرل عاصم منیر صاحب کی گوجرانوالہ کے کور کمانڈر کے طور پر شہرت کا ذکر کردیا ہے جس پر خان صاحب چوکنا ہوچکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب نے کرنا تو وہی ہے جو وہ طے کر چکے ہیں مگر جنرل ندیم انجم کی تقرری والے معاملے کی مثال ہی لے لیں اور اب بتائیں، کیا واقعی یہ اختیار عمران خان کے پاس موجود ہے؟

خیر وہ دور اب جاچکا ہے کہ خان صاحب مزید کچھ عرصہ سوئے رہیں اور اپنے مداحوں کی حصار میں یہ سمجھ بیٹھیں کہ آل از ول، all is well۔ سلطان مراد کو تو اس وقت کا شیخ الاسلام سبق دے گیا تھا کہ جاگ جاؤ اس سے پہلے کہ تمہاری سلطنت تباہ ہوجائے۔ سلطان نے نہیں سنی اور سلطنت تباہی کے آخری دہانے پر پہنچا کر ہی دم لیا۔ تمام حریفوں کی گردنیں اڑوادیں اور کوئی مخالف رہنے تک ہی نہیں دیا۔ ایک مخالف کو بھول گئے، وہ مخالف وہ خود تھے۔موجودہ سلطان نے حریفوں کی گردنیں دبوچ تو رکھی ہیں مگر اب تک شیخ الاسلام کی طرز کا شخص سامنے نہیں آیا جو یہ بتا سکے کہ گیم اوور ہونے والی ہے، آپ کی دشمن اپوزیشن نہیں آپ خود ہیں۔کیونکہ موجودہ سلطان کو اس حال میں پہنچانے والا بھی ان کا غصہ، ضد اور نرگسیت ہی ہوگی۔ اب سلطان خود کی اصلاح کرتے ہیں یا مخالفت کی گردن دبوچنے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں، فیصلہ بہرحال سلطان نے ہی کرنا ہے۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔