کاش ہمارے گاؤں میں ہر وقت چیف جسٹس آئیں  

کاش ہمارے گاؤں میں ہر وقت چیف جسٹس آئیں  

گزشتہ روز گاؤں آتے ہوئے ایک عجیب تماشا دیکھا۔ گاڑیاں پرانے روڈ پر چلنے کی بجائے ایک متبادل سڑک پر ڈال دی گئیں تھیں کیونکہ جو مین روڈ تھا اس پر سال بھر سے کام جاری تھا اور کام تھا کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ جس سے علاقے کے مکین نالاں ہو گئے تھے کیونکہ اس روڈ کو مول کمپنی کی بڑی گاڑیوں کی آمدورفت نے تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ خدا خدا کرکے مول کمپنی اور صوبائی حکومت کو کچھ خیال آیا تو سڑک کی تعمیر شروع کر دی گئی اور اب چیف جسٹس کی آمد پر سڑک پر کام تیز کر دیا گیا ہے اور یہ سڑک 7 نومبر کو مکمل ہوجائے گی یعنی چیف جسٹس کے آنے کے پیش نظر علاقے کے عوام کو فائدہ مل گیا۔ اس سے پہلےاس سات کلومیٹر کے روڈ پر جس سست روی سے یہ پراسس جاری تھا تو اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ سڑک ایک دو سال میں تعمیر ہوگی۔


اب دعائیں رنگ لے آئیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے گاؤں ٹیری ضلع کرک میں گذشتہ سال 30 دسمبر 2020ء کو شرپسندوں کی جانب سے ٹیری میں قائم گورو پرماہانس مہاراج کی سمادھی کو آگ لگا کر جلا دیا اور سامان لے کر چلے گئے۔ اب چیف جسٹس اس کا افتتاح کریں گے۔



سمادھی کو جلانے میں گاؤں کے لوگوں کے ساتھ نزدیکی گاؤں کے لوگوں کا بھی ہاتھ تھا جنہوں نے اس سمادھی کو پہلے بھی 1997ء میں توڑا تھا اور پھر دوبارہ وہی روش اپنائی گئی اور اسے تہس نہس کر دیا گیا۔


اس سمادھی کو دونوں دفعہ نقصان پہنچانے میں مفاد کا ہی مسئلہ تھا کچھ لوگوں کے مالی مفاد اس میں وابستہ تھے جس سے علاقے بھر کی بدنامی ہوئی۔ ٹیری کو نوابوں کی سرزمین کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ اس کو گزشتہ ایک سال سے سمادھی توڑنے والے عناصر کے نام سے جانا جانے لگا ہے۔


اس سمادھی کو توڑنے والے جیلوں میں گئے ان کے خلاف ایف آر درج کئے گئے پھر یہ لوگ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ حکومت نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی مگر پھر صوبائی سطح پر جرگہ ہوا اور تمام شرپسند بری کر دئیے گئے اور وہ باہر آکر مونچھوں کو تاؤ دینے لگے بلکہ کچھ تو خود کو غازی تصور کرنے لگے اور اُن کی اپنی نظروں میں  وقعت بڑھ گئی۔



سمادھی پر تعمیر شروع ہوئی جس میں مختلف ذرائع سے روڑے اٹکائے گئے۔ کئی مواقع پر کام روک دیا گیا کیونکہ انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں بکھیری تھیں۔ جو احکامات سپریم کورٹ نے دیئے تھے اُس پر عملدرامد نہیں کیا گیا مگر ایم این اے رامیش وانکوانی کی بدولت سمادھی کی تعمیر پر کام جاری رہا اور ایک سال سے بھی کم عرصہ میں سمادھی کی تعمیر کرادی گئی۔


جو جگہیں خریدی گئیں تھیں اُس کے ساتھ کچھ اور زمینیں بھی خریدی گئیں کیونکہ سپریم کورٹ کے احکامات اس بارے میں آئے کہ ہندوں جہاں بھی چاہیں اراضی خرید سکتے ہیں انہیں اس بات کی اجازت قانون دیتا ہے۔ ان احکامات کے بعد ٹیری کی سمادھی کو اب مندر کا نام دے دیا گیا ہے۔



سمادھی کے بارے میں ہم پہلے آرٹیکل میں ذکر کر چکے ہیں کہ سمادھی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ہندو زائرین اپنے یوگی کے مقبرے کی زیارت کرنے آتے ہیں اور ٹیری میں گورو پرماہانس کا مقبرہ تھا۔ ساتھ میں ملحقہ مندر تھا جو ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ ختم ہو گیا۔


یہاں اور بھی مندر تھے کیونکہ اس محلےمیں ہندوؤں کی اکثریت تھی جبکہ ادکا دکا مسلمان بھی اس محلہ کے باسی تھے۔ اب پورے علاقے میں ایک بھی ہندو نہیں ہے مگر گزشتہ سال کے حملے کے بعد اور اس سے پہلے اس کو سمادھی تصور کیا جاتا تھا اب وہ سمادھی کہیں کھو گئی ہے اور اسے ٹیری سمادھی نہیں بلکہ ٹیری مندر کا نام دیا گیا ہے جو کہ اب مسلمانوں کے ساتھ اور یہاں بسنے والوں کے ساتھ ایک زیادتی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر میں ہندو کمیونٹی کو کوئی الزام نہیں دیتا اس میں غلطی ہماری ہے اگر ہم باہر کے لوگوں کو موقع نہیں دیتے سمادھی پر حملہ نہ ہوتا اور سمادھی مندر کی حیثیت نہ لیتا۔



گاؤں ٹیری کا یہ علاقہ جہاں یہ سمادھی مندر موجود ہے، گزشتہ ایک ہفتہ سے یہاں صفائیاں ہو رہی ہیں جس طرح پہلے ہندوئوں نے گلی پختہ کی تھی اور ایک بہترین سڑک کی تعمیر سمادھی تک کی تھی اب حکومتی زعما نے اسی محلے کو جانے والے راستے کو سفیدی میں نہلا دیا ہے۔ پورے کا پورا محلہ صفائی نصف ایمان والا کی مثال پیش کر رہا ہے جس کی بنیادی وجہ چیف جسٹس گلزار احمد کا ٹیری مندر سمادھی کا افتتاح ہے جو وہ دیوالی کی پرمسرت تقریب کے بعد کریں گے۔ اس گلی کا اتنا بہترین حال دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ ہندووں کے ساتھ ساتھ اب چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد بار بار اور ہر وقت یہاں آئیں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔