'آپریشن سنجرانی' ۔۔۔ ایک بار پھر

'آپریشن سنجرانی' ۔۔۔ ایک بار پھر
دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اور جو دو دفعہ جلا ہو؟

وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ بھی ایک شخص ہے جس نے اپوزیشن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ سنجرانی سے ملیے۔ صادق سنجرانی۔ گذشتہ چند سالوں میں جس طرح سینیٹ میں انہوں نے تسلی سے سربراہی کی ہے، حالیہ سالوں میں کسی نے نہیں کی۔ وہ مسکراتے مسکراتے اپنے تمام مخالفین کو زیر کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ کاغذوں پر ہی سہی، سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تو ہے۔ تمام تر نامساعد صورتحال کے باوجود انہوں نے ایک عدد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا اور پھر تمام تر نامساعد صورتحال کے باوجود ہی دوسری مرتبہ سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہو گئے۔

لیکن کیا اب حالات ان کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں؟ کیا بلی کی نو زندگیاں مکمل ہو چکی ہیں؟ اس کا پتہ بہت جلد چل جائے گا کیونکہ اپوزیشن تیسری دفعہ کے لئے چھریاں تیز کر رہی ہے۔ ' آپریشن سنجرانی' بہت جلد شروع ہونے والا ہے۔

جمعے کو اس کا ایک اشارہ ملا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے پیپلز پارٹی کی علیحدگی کے بعد سے پہلی مرتبہ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان قریب آتے ہوئے دکھائی دیے جب بلاول ایک بڑے وفد کے ہمراہ جمعیت علمائے اسلام سربراہ کے گھر پہنچے۔ پی ڈی ایم کے عملاً ٹوٹنے کے بعد سے متحدہ اپوزیشن اتنی متحدہ نہیں رہی تھی گو کہ غیر رسمی تعاون پارلیمنٹ کے اندر جاری رہا ہے۔ لیکن گذشتہ ماہ وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ میں پیدا ہونے والے تناؤ کے بعد سے جو تازہ ہوا اسلام آباد میں چلی ہے، اس کی خوشبو میں ایسی مٹھاس ہے کہ اپوزیشن کی سانسوں میں یہ مٹھاس گھل رہی ہے۔

اسے ایک موقع کی بو آ رہی ہے۔

' آپریشن سنجرانی' کے پیچھے منطق کچھ یوں ہے: ان کی تینوں فتوحات – پہلی بار چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا، تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانا اور دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا – براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے مرہونِ منت تھا۔ انہی کی حمایت تھی کہ اپوزیشن کے ووٹ جادوئی انداز میں حکومتی امیدوار کو پڑ گئے۔ لیکن گذشتہ ماہ سے چلنے والی تازہ ہوا غیر جانبداری کی سوندھ لے کر آئی ہے۔ اگر تو اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹتی ہے – اور یہی اپوزیشن کا فی الحال مطالبہ ہے – تو اس کی باریک سی برتری تحریکِ عدم اعتماد کی صورت میں اپنا کام دکھا دے گی۔ رات گئے کوئی جادوئی فون کالز نہ کی گئیں تو اعداد کا کھیل وہ جیت جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سنجرانی کو شکست ہوگی۔

اگر ان کو شکست ہو گئی تو یہ پہلی واضح علامت ہوگی کہ اسٹیبلشمنٹ واقعتاً غیر جانبدار ہو چکی ہے۔ اس کا پھر یہ بھی مطلب ہوگا کہ وزیر اعظم تنہا ہو چکے ہیں۔ واقعی تنہا۔

لہٰذا پیغام یہ ہے کہ ' آپریشن سنجرانی' کیا جائے گا۔ اگر اس میں کامیابی ہوئی تو پھر عمران کو نکالنا بھی آسان ہوگا۔ بلکہ پھر تو یہ لازمی ہو جائے گا۔

تو پہلا قدم یہ ہے کہ اپوزیشن کو اس آپریشن پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ ابھی فیصلہ نہیں ہوا لیکن بہت سے لوگ اس پر متفق ہیں۔ یہاں تک کہ سنجرانی کی شکست کی صورت میں کچھ ممکنہ امیدواروں پر بھی بات چیت کی جا چکی ہے۔ فیصلہ نہ ہونے کی وجہ یہ خوف ہے کہ ایک مرتبہ پھر ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ کیونکہ اس مرتبہ ناکامی کے نتائج میں صرف سنجرانی کو چیئرمین کے عہدے سے گھسیٹ کر ہٹانا شامل نہیں۔ اس کا مطلب دراصل یہ ہوگا کہ ایک کمزور نظر آتی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا زور ٹوٹ جائے گا، اور یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ بیشک وزیر اعظم تنہائی کا شکار ہے لیکن مکمل طور پر تنہا نہیں۔ کم از کم اب تک۔

یہ فیصلہ، اگر ہوا، تو 19 نومبر کے بعد ہوگا۔

دوسرا مرحلہ بلوچستان عوامی پارٹی کی سن گن لینا ہوگا۔ صادق سنجرانی اس جماعت کے رکن ہیں لیکن جام کمال کے خلاف پارٹی کے اندر ہوئی بغاوت نے جماعت کو تقسیم کر دیا ہے۔ بہت سے اراکین کو خار ہے۔ اپوزیشن یہ جانتی ہے۔ تاہم، اس کو بہت محتاط ہو کر دیکھنا ہوگا کہ BAP کے کچھ اراکین ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں یا نہیں۔ اگر انہوں نے شیکسپیئر کو پڑھ رکھا ہوگا تو انہیں بروٹس کے یہ الفاظ یاد ہوں گے:

"ایسا نہیں کہ مجھے سیزر سے کم پیار تھا، لیکن مجھے روم سے پیار زیادہ تھا"۔

تیسرا مرحلہ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین کے امیدوار پر فیصلے کا ہوگا۔ چونکہ پیپلز پارٹی کے پاس اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ہے، مسلم لیگ ن مطالبہ کر سکتی ہے کہ اگلا چیئرمین اس کا کوئی سینیٹر ہونا چاہیے۔ اگر پیپلز پارٹی اس پر مان گئی اور مسلم لیگ ن سینیٹ چیئرمین کا عہدہ لینے میں کامیاب ہو گئی تو ملکی سیاست سے متعلق تاثر یکسر تبدیل ہو جائے گا۔

لیکن ہمیشہ کی طرح، کچھ پیچیدگیاں ہیں۔

صادق سنجرانی نے ابھی حال ہی میں بلوچستان میں ایک بغاوت کامیاب کروائی ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ بننا دراصل صادق سنجرانی کی فتح تھی۔ کم از کم دیکھنے کی حد تک وہ اب تک کامیابی کے رستے پر ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے آشیرواد کے بغیر بلوچستان میں یہ تبدیلی کیونکر ممکن ہوتی؟ لہٰذا اپوزیشن میں جس کسی کو بھی لگ رہا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ سنجرانی کو تنہا چھوڑ دے گی وہ خطرہ دیکھ بھال کر مول لے۔ سنجرانی وزیر اعظم کا اتحادی ہے لیکن ان کا آدمی نہیں ہے۔ حالیہ سالوں میں وہ چیئرمین بننے کے بعد سے اپنے آپ میں ایک اہم مصالحت کار بن کر ابھرے ہیں۔ جام کمال کے نکالے جانے کے بعد سے ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اب بلوچستان کے فیصلے بھی ان کے دفتر سے ہونے لگے ہیں۔ اب وہ بہت سے لوگوں کے لئے بہت ہی کام کے آدمی بن چکے ہیں۔

لہٰذا 2021 کے سیاسی ورلڈ کپ میں آپریشن سنجرانی سیمی فائنل ہے۔ حکومت کی طرف سے سنجرانی ڈیوڈ وارنر کی طرح کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے بار بار اپنی دھواں دار بلے بازی کے ساتھ ساتھ بہت عقلمندی سے سنگل ڈبل بھی لی ہیں۔ لیکن ایک شدید دباؤ والے میچ میں وارنر بھی اپنی وکٹ کھو سکتا ہے، خواہ گیند اس کے بلے سے نہ ٹکرائی ہو۔

اپوزیشن بابر اعظم کی ٹیم کی طرح بڑی تگڑی اور پر اعتماد لگ رہی ہے۔ امپائر کی غیر جانبداری کی صورت میں اسے لگتا ہے کہ یہ مناسب تعداد میں ووٹ لے سکتی ہے اور اس کو شکست دینا ممکن نہ ہوگا۔ لیکن یہ کیچ چھوڑ سکتی ہے جس سے سنجرانی اس کے ساتھ وہی کچھ کر سکتے ہیں جو میتھیو ویڈ نے بابر اعظم کی ٹیم کے ساتھ کیا۔

یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن ورلڈ کپ 2021 کی ایک نئی تاریخ لکھے اور سنجرانی کو پویلین واپس بھیج دے۔ گیم آن ہے۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔