اگر قاتلوں کو معافی دی جا سکتی ہے تو پشتون تحفظ موومنٹ کا کیا قصور ہے؟

اگر قاتلوں کو معافی دی جا سکتی ہے تو پشتون تحفظ موومنٹ کا کیا قصور ہے؟
گزشتہ روز جب حکومتی اتحاد نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے دو اہم ترین بلوں کے ذریعے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور آنے والے انتخابات برقی مشینوں کے ذریعے کرانے سمیت دیگر بل بھی منظور کروائے تو اس وقت وزیراعظم عمران خان کے چہرے پر جو اعتماد تھا وہ صرف اپنی باقی مدت سکون سے مکمل کرنے کا نہیں تھا بلکہ وہ 2023 کے انتخابات جیت کر اگلے پانچ سال بھی حکومت کرنے کا تھا۔ کیونکہ متحدہ اپوزیشن کے بڑے حمایتی صحافی اور سابقہ چیئرمین کرکٹ بورڈ اور سابقہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے یو ٹیوب چینل اور ٹی وی پروگرام میں تواتر سے دعویٰ کر رہے تھے کہ وزیراعظم عمران خان اور ہیت مقتدرہ کے درمیان اب پہلے والے تعلقات نہیں رہے۔ ایک صفحے پر ہونے کا تاثر ختم ہو چکا ہے۔

مگر ایسا نہ ہوا اور حکومتی اتحاد نے اپنے نمبر پورے کیے جس کے باعث وزیراعظم عمران خان بہت پراعتماد دکھائی دیے۔ جب وہ ووٹنگ کے لیے جا رہے تھے تو صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انکی بدن بولی بتا رہی تھی کہ وہ میچ جیتنے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے بہت برے معاشی حالات میں اقتدار سنبھالا تھا، اوپر سے رہی سہی کسر کرونا وائرس نے پوری کر دی مہنگائی جو درحقیقت ایک عالمگیر مسئلہ بن گیا ہے وہ ان کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے۔ کیونکہ پی ڈی ایم مرحومہ تو پچھلے دو سالوں سے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔

وزیراعظم عمران خان کو اگر کسی نے پریشان کیا ہے تو مہنگائی ہے، ایک بات جس کا شاید حکومت خود بھی ادراک نہیں رکھتی۔ جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے منہگائی پوری دنیا سے ختم نہیں ہو گی چونکہ پاکستان کا پارلیمانی نظام حکومت اسی سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت ہے اس لیے عام عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کیونکہ جن لوگوں کے پیچھے وہ لگے ہوئے ہیں انکے اپنے مفادات اسی نظام سے وابستہ ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے دنوں میں دو شرپسند گروپوں سے مذکرات کیے اور ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ،ایک تحریک طالبان پاکستان اور دوسری تحریک لبیک ہے، ان دونوں عناصر کے ساتھ بات کرنا اور عام معافی کا اعلان کرنا مہذب دنیا اور مہذب معاشروں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ تحریک طالبان وہ ہے جو پاکستان میں پچھلے پندرہ سالوں سے متواتر خود کش حملے کر رہی ہے اور پشاور سکول میں معصوم بچوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ وزراعظم عمران خان پچھلے پندرہ سالوں سے متواتر ان کے ساتھ مذکرات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں، ان کی دلیل جدید دنیا کے لیے قابل قبول نہیں مگر پاکستان میں انکی حکومت ہے، ادھر وہ سیاہ وسفید کے مالک ہیں۔ دیکھتے ہیں تحریک طالبان کے ساتھ انکا رومانس کب تک چلتا ہے۔
دوسری جماعت تحریک لبیک ہے جو پچھلے 4 سال سے پر تشدد کاروائیوں میں ملوث ہے اور بنام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سیاسی دوکان درای کر رہی ہے۔ بے شمار املاک کو نذر آتش کیا، 20 کے قریب پولیس والوں کو جان سے مارا، سینکٹروں کو زخمی کیا پھر جماعت کو کالعدم قرار دیا گیا۔
پہلے مولوی خادم حسین رضوی اب انکے بیٹے سعد رضوی پر مقدمہ چلایا گیا۔ خادم رضوی فوت ہو گئے، اب سعد رضوی بھی رہا ہو چکے ہیں۔ اگر ان سب کے ساتھ یہ سب ہو سکتا ہے۔

اگر دہشت گرد ٹی ٹی پی اور پولیس اہلکاروں کی قاتل ٹی ایل پی کو عام معافی دی جا سکتی ہے تو پشتون تحفظ موومنٹ کا کیا قصور ہے؟ علی وزیر، منظور پشتین اور محسن داروڑ کا کیا قصور ہے کیا وہ اس دھرتی کے بیٹے نہیں ہیں؟ یہ تو کبھی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں رہے۔ ان کے ہاتھوں میں کسی کا لہو نہیں، پھر بھی ریاست ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کر رہی ہے؟ وزیراعظم عمران خان ایک قدم آگے بڑھیں جہاں باقیوں کو گلے سے لگایا ہے پی ٹی ایم کو بھی گلے سے لگا لیں یہ بھی ہمارے بھائی ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔