جلد ہی دونوں کا اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے گا

جلد ہی دونوں کا اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے گا
وزیر اعظم عمران خان سکول جاتے بچوں اور پاکستانی سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں سمیت ہزاروں افراد کو قتل کرنے والے دہشتگردوں سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی اپوزیشن سے نہیں۔

وہ پیر کو بند دروازوں کے پیچھے 5 گھنٹے جاری رہنے والی پارلیمانی کمیٹی کی سکیورٹی بریفنگ میں نہیں گئے کیونکہ وہ شاید اپنے غیر متشدد مخالفین سے ہاتھ ملانے سے گریز کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے لئے ایک بڑا گڑھا کیوں کھود رہے ہیں؟

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے حکومتی اور حزبِ مخالف کے پارلیمنٹیرینز کو بتایا کہ افغانستان میں حال ہی میں اقتدار میں آنے والے افغان طالبان حکومتِ پاکستان کی تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔ پاکستانی فوج کے انہی سینیئر افسران نے 15 اگست کو پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان دونوں ہی ان کی نہیں سن رہے تھے اور یہ کہ یہ دونوں گروہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پھر کیا تبدیل ہو گیا ہے؟ جنرل باجوہ سے بہت سے سوالات پوچھے گئے لیکن وہ ان کے واضح جوابات نہ دے سکے۔ ملاقات کے بعد تمام پارلیمنٹیرینز نے اندر ہونے والی بات چیت پر قطعاً کوئی بات باہر نہیں نکالی لیکن تمام نے اس بات کی تصدیق کی کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ تمام جماعتوں نے کالعدم تنظیموں سے بات چیت کی مخالفت کی۔ اس بریفنگ کے چند ہی منٹ بعد تحریکِ طالبان پاکستان نے پاکستانی فوج کے ساتھ ایک مہینے کی جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور اسی روز کچھ دیر بعد تحریکِ لبیک پاکستان نے بھی اپنا احتجاج ختم کر دیا۔

جب عمران خان اپوزیشن میں تھے، وہ تحریکِ لبیک پاکستان کے حمایتی تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کی جماعت نے اسی تحریکِ لبیک پر اپریل 2021 میں دہشتگردی کے قانون کا اطلاق کرتے ہوئے پابندی عائد کر دی۔ چھ ماہ کے اندر ہی انہوں نے اس جماعت کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور پابندی ہٹا لی، جس کا نوٹیفکیشن 7 نومبر کو جاری ہو چکا ہے۔ تحریکِ لبیک کے رہنماؤں پر قتل اور پولیس افسران کو جان سے مارنے کے الزامات ہیں۔ حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اس کے رہنما عدالتوں سے اپنی آزادیاں حاصل کرنے کے لئے استدعا کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ پاکستان میں قانون کی حاکمیت پر ایک سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔ اب دوسرے گروہ بھی ریاست سے اسی قسم کے برتاؤ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سپاہِ صحابہ پاکستان کے ایک رہنما نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کی جماعت پر سے پابندی نہ ہٹائی گئی تو وہ بھی تحریکِ لبیک کی طرح سڑکوں پر احتجاج کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ ایک گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک سے دوسرے گروہ بھی اعتماد حاصل کریں گے۔ وہ بھی TLP کی طرح حکومت کو بلیک میل کریں گے اور نتیجتاً ریاست ہی اپنی رٹ کھوئے گی۔

چند ہی ماہ قبل پاکستان FATF کی گرے لسٹ سے نکلنے میں ناکامی کا سامنا کر چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دیے گئے چند افراد کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی تھی۔ اب تحریکِ طالبان اور تحریکِ لبیک کے ساتھ معاہدوں کو پاکستان کی جانب سے عالمی فورمز پر کروائی گئی بہت سی یقین دہانیوں سے انحراف کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ پارلیمنٹیرینز نے جنرل باجوہ سے پوچھا کہ اگر پاکستان میں امن لانے کے لئے ان تنظیموں کے ساتھ یہ معاہدے اتنے ہی ضروری ہیں تو علی وزیر، ایک منتخب رکنِ پارلیمنٹ، کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟ علی وزیر گذشتہ دسمبر سے فوج کے خلاف ایک تنقیدی تقریر کرنے پر گرفتار ہے۔ اس نے کبھی کسی سپاہی کا قتل نہیں کیا۔ قاتلوں کے لئے امان ہے لیکن علی وزیر کے لئے رحم تک نہیں؟

اگر تمام شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوگا تو استحکام کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ پاکستانی ریاست نے تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ ماضی میں بھی کئی معاہدے کیے ہیں لیکن نتائج کبھی بھی مثبت نہیں رہے۔ یہ ساتویں مرتبہ ہے کہ ریاست پھر ایک ایسا ہی معاہدہ کر رہی ہے۔ پاکستانی حکام تحریکِ لبیک کے ساتھ بھی کئی معاہدے کر چکے ہیں۔ دونوں تنظیموں کا بیک گراؤنڈ بہت مختلف ہے لیکن تحریکِ طالبان پاکستان نے تحریکِ لبیک کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ جب بھی TTP یا TLP نے معاہدے توڑے، حکومتی وزرا نے انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دیا۔ اب یہی وزرا انہی لوگوں کے ساتھ معاہدوں کی تاویلیں کرتے نظر آتے ہیں جنہیں حال میں ہی یہ بھارتی ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ تو پھر جھوٹ کس نے بولا؟ ملک میں کوئی کھلے عام بحث نہیں ہو رہی۔ عمران خان پارلیمان کو ربڑ سٹیمپ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ وہ سکیورٹی اداروں کے اعتماد سے کھیل رہے ہیں۔ ایک ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاست چند جتھوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے اور علی وزیر جیسے غیر متشدد سیاستدانوں پر اپنا زور چلاتی نظر آ رہی ہے۔

حزبِ اختلاف کے کچھ قانون سازوں نے مجھے بتایا کہ عمران خان نے ماضی میں ہمیشہ تحریکِ طالبان اور تحریکِ لبیک کی حمایت کی ہے اور وہ آنے والے انتخابات میں ان گروہوں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے سرکردہ رہنما سرِ عام تحریکِ لبیک کے ساتھ اتحاد کے امکان پر بات کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہو رہی ہیں اور انہوں نے حکومت مخالف جلسے جلوس شروع کر دیے ہیں۔

عمران خان ہر قیمت پر دوسری مدت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جنرل باجوہ بھی مدتِ ملازمت میں ایک اور توسیع کے خواہشمند نظر آتے ہیں اور جنرل فیض حمید ان کے بعد ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ مگر جلد ہی ان دونوں جرنیلوں کا اکٹھے رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ وزیر اعظم کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید میں سے ایک کو چننا ہوگا لیکن قانون کی عملداری اور لاقانونیت کے بیچ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

اگر عمران خان قانون توڑنے والوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے عوام کے لئے معاشی پابندیوں اور مشکلات کا مؤجب بنیں گے۔ وہ صرف اپنے لئے نہیں، اپنے ملک کے لئے بھی گڑھا کھود رہے ہیں۔




حامد میر کا یہ کالم واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔