باجی پپی کو ان کا بیٹا مدثر نارو واپس کر دیں۔ آپ کے پاس وقت بہت کم ہے

باجی پپی کو ان کا بیٹا مدثر نارو واپس کر دیں۔ آپ کے پاس وقت بہت کم ہے
موٹروے سے فیصل آباد پہنچنے کے لئے امین پور انٹرچینج سے اتر کر فیصل آباد شہر کی جانب رخ کریں تو چار، پانچ کلومیٹر بعد دائیں ہاتھ پر موجود چھوٹی سڑک پر جواد کلب اور چک نمبر 219 تلیاں والا کا بورڈ نظر آئے گا۔ اس سڑک پر تقریباً تین کلومیٹر سفر کے بعد تلیاں والا گاؤں کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ گاؤں کیا ہے پورا شہر ہے جو پاکستان بننے سے پہلے کا آباد ہے۔ وقت کے ساتھ اس کی ہیئت ضرور تبدیل ہوئی ہے لیکن پرانے زمانے کی تنگ اور تھوڑا سا آگے جا کر بند ہو جانے والی گلیاں اس گاؤں کی پہچان ہیں۔ اسی تلیاں والا میں میرے بچپن، لڑکپن اور اوائل جوانی کے بہت سارے دن گزرے ہیں۔ میری ایک خالہ بھی اسی گاؤں میں بیاہ کر آئی تھیں۔ میری نانی کا میکہ بھی اسی گاؤں میں آباد ہے۔ ہمارا اپنی خالہ سے بہت پیار تھا اس لئے ہم تمام بہن بھائیوں کا ان کے پاس زیادہ دیر رہنے کا مقابلہ پورا سال جاری رہتا۔

میری خوش قسمتی یہ تھی کہ میں نے یہاں اپنا بہت سارا وقت گزارا۔ خالہ کا گھر ایک تنگ ہوتی گلی کے دائیں جانب کا آخری گھر تھا اور اس کے ساتھ اس گلی کو بند کرتا ہوا ایک اور گھر تھا۔ خالہ کو جب بھی شہر یا رشتہ داروں کے ہاں جانا ہوتا تو ان کے گھر کی باگ ڈور یعنی ہمارے لئے کھانا پکانا یا ہمیں کنٹرول کرنے کے لئے گلی کو بند کرتے گھر کی بہو "باجی پپی" کے حوالے ہو جاتی۔ باجی اس چھوٹے سے محلے میں عملاً میری خالہ کی نائب تھیں۔ وہ فیصل آباد کے نواحی قصبے بچیکی سے بیاہ کر آئی تھیں۔ شنید یہ تھی کہ ان کا خاندان تقسیم ہند کے وقت بڑی قربانیاں دے کر بچیکی میں آ کر آباد ہوا تھا۔

باجی کا خاوند بڑے عرصے سے جرمنی میں تھا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو ان کے دو بیٹے تھے جو ہر وقت ان کے ساتھ ہوتے۔ جب بھی ہمارا خالہ کے ہاں جانا ہوتا تو ہم باجی سے ضرور پوچھتے کہ وہ کب واپس آئیں گے اور وہ پورے یقین کے ساتھ کہتیں کہ انشاءاللہ اس سال۔ سال گزرتے گئے، باجی کا شوہر واپس نہ آیا لیکن نہ ہم نے پوچھنا چھوڑا اور نہ باجی نے پُریقین لہجے میں کہنا چھوڑا کہ "انشاءاللہ اس سال"۔

خالہ کی اچانک موت اور کالج یونیورسٹیوں میں پہنچ جانے کی وجہ سے ہمارا تلیاں والا میں آنا جانا تقریباً ختم ہو کے رہ گیا۔ بعد کے سالوں میں یہ خبر ملی کہ باجی کا انتظار ختم ہو گیا ہے اور ان کے شوہر نے واپس آ کر گارمنٹس کی دکان کھول لی ہے۔ اس کے بعد شاید ہی ایک آدھ دفعہ باجی سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بچے بڑے ہو چکے تھے اور اب ان کے چہرے سے انتظار کی کیفیت بھی ختم ہو چکی تھی کیونکہ ان کا یقین جیت چکا تھا۔

اڑھائی تین سال پہلے ایک عزیز نے یہ خبر دی کہ باجی کا بیٹا اغوا ہو گیا ہے۔ اس عزیز نے خبردار کرنے کے انداز میں بتایا کہ فیس بک پر کوئی بلاگ وغیرہ لکھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ میرے دماغ نے فوراً یہ خیال جھٹک دیا کہ بلاگ کی بنیاد پر گرفتار ہونا اور بات اور اغوا ہو جانا بالکل مختلف بات ہے۔ آپ کو میری بات کا شاید یقین نہ آئے لیکن تین چار سال پہلے تک پنجاب میں رہنے والا ہر شخص تقریباً میری طرح ہی سوچتا تھا۔ میں نے افسوس کا اظہار کر کے فون بند کر دیا لیکن یہ تک نہ پوچھا کہ ان کے بیٹے کا نام کیا ہے اور وہ کیا کام کرتا ہے۔ بس دل میں خوش فہمی پال لی کہ انشاءاللہ وہ جلد واپس آ جائے گا۔ انہی دنوں سوشل میڈیا پر فیصل آباد سے ایک نوجوان صحافی مدثر نارو کے اغوا کا شور و غوغا اٹھنے لگا۔ دل میں دھڑکا ضرور رہتا کہ کہیں مدثر نارو باجی کا ہی بیٹا نہ ہو کیونکہ واقعات کا بہاؤ تقریباً ایک ہی طرف تھا۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ مدثر نارو کی بیوی کی المناک موت کے بعد میں نے یہ تصدیق کرنے کی کوشش نہیں، ہمت کی کہ مدثر نارو کہیں باجی کا ہی بیٹا تو نہیں حالانکہ حالات و واقعات سے مجھے یہ اندازہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بڑے عرصہ بعد تلیاں والا خالہ مرحومہ کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو معلوم پڑا کہ مدثر نارو ہماری باجی پپی کا ہی بیٹا ہے۔ میری باجی سے ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ وہ جبری طور پر گمشدہ افراد کے احتجاج کے لئے اسلام آباد گئی ہوئی تھیں۔ ملاقات ہو بھی جاتی تو میں ان کی کیا مدد کر سکتا تھا۔ یہ خبر سن کر شدید مایوسی ہوئی لیکن یہ خبر بھی ملی کہ باجی ہمیشہ کی طرح پریقین ہیں کہ مدثر نارو واپس ضرور آئے گا۔

میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میں مدثر نارو کو نہیں جانتا اور نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ وہ صحافی ہے اور نہ ہی اس کا بلاگ آج تک پڑھا ہے۔ میں اس کے اغوا یا گمشدگی کا الزام بھی ثبوت کے بغیر نہیں لگا سکتا بلکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی طرح محفوظ راستہ لیتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مدثر نارو جہاں بھی ہے اس کی برآمدگی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مجھے کوئی غرض نہیں کہ وہ مستقبل میں صحافی رہنا چاہے گا یا کوئی کاروبار کرنا چاہے گا۔ مجھے تو صرف اس بات کی فکر زیادہ ہے کہ ہماری باجی اور سچل کا یقین ختم نہ ہو جائے۔

"یقین" ایسی چیز ہے کہ باجی کے خاندان سمیت لاکھوں لوگوں کو ایک نئے ملک کے لئے ہجرت کرنے اور اپنے پیاروں کی قربانیاں دینے پر تیار کر دیتا ہے۔ یہی یقین تھا جس نے ہزار بے ایمانیوں کے باوجود اس قوم کو 1973 کے سماجی معاہدے پر راضی کر دیا۔ اس کے بعد بھی دھوکہ دہی اور منزل کھوٹی کرنے کا سفر جاری رہا لیکن ان لوگوں نے اپنے یقین کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، حوصلہ نہیں چھوڑا۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے مشرقی پاکستان کا "یقین" ختم کر ڈالا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اکثریت نے اقلیت کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا۔

اب بھی دست بستہ یہی درخواست ہے کہ ہماری تلیاں والا کی باجی اور بلوچ بہنوں کا اس ریاست پاکستان پر یقین واپس کر دیں۔ یقین رکھیں ایسا کرنے پر یہ لوگ ہمارے حکمرانوں کو اور زیادہ مضبوط اور باعزت بنائیں گے اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو سکا تو قانون اور ریاست پر ان کا یقین ختم ہو جائے گا۔ پھر چاہے تلیاں والا کی باجی ہو یا بلوچستان کے کسی دور دراز گاؤں کی بہن، ان کی آہیں سب کی عزت کو لے ڈوبیں گی۔ ان کا یقین قائم ہے تو سرداریاں قائم ہیں لیکن یہ سرداری ان کے پیاروں کی قیمت پر انہیں منظور نہیں۔

آج کے دن ایک بہت بڑا سوال بھی ہمارے سامنے آ چکا ہے کہ آخر ان لوگوں سے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے ایسا کون سا جرم سرزد ہو چکا ہے جو ان کا مقدر گمشدگی ٹھہرا اور پاکستانی ریاست سے لڑنے والوں اور پاکستانیوں کو شہید کرنے والی تنظیموں یعنی ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہو رہے ہیں؟ قوم کے لئے یہ پیغام بہت خطرناک ہے کہ جس کے ہاتھ میں بندوق ہے ہم صرف اس سے برابری کی سطح پر بات کرتے ہیں۔ علی وزیر کی والدہ کو بھی یہی پیغام پہنچا ہے کہ قربانیاں دینے والوں کی یہاں کوئی اہمیت نہیں اور چونکہ تمہارا بیٹا بندوق سے بات نہیں کرتا اس لئے آزاد نہیں ہوگا اور ٹی ایل پی کے کارکن اس لئے جیل سے رہا ہوں گے کہ وہ بھی ڈنڈے سے بات کرتے ہیں۔ ہماری ریاست کو جلد فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بات کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہے یا گولی سے بات کرنے والوں کے ساتھ کیونکہ اب وقت بھی بہت کم رہ گیا ہے۔