• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, فروری 7, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

لاہور شہر موت کے قریب، پاکستان کے دل کو مرنے سے بچا لو

تارڑ صاحب کو جس لاہور کی زندگی پر ناز تھا وہ لاہور آج سسک سسک کر مر رہا ہے۔ لاہور کے شہری ہوا میں نہیں بلکہ ہر طرف چھائے زہریلے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں۔ اس دھوئیں کا سائنسی نام سموگ ہے۔ سموگ کبھی نظر آتی ہے اور کبھی نظر نہیں آتی۔

حامد میر by حامد میر
نومبر 29, 2021
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
82 1
2
لاہور شہر موت کے قریب، پاکستان کے دل کو مرنے سے بچا لو
96
SHARES
459
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

یہ ایک چھوٹا سا فقرہ تھا، لیکن اس فقرے میں ایک شہر کی موت کی خبر چُھپی ہوئی تھی۔ طاہر ملک نے یہ فقرہ بولا تو میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔

میں تصدیق کرنا چاہ رہا تھا کہ کیا وہ واقعی سنجیدہ ہے؟ طاہر ملک نے فقرہ دہراتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مجھے بار بار کہہ رہا ہے کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہ شہر چھوڑ دو۔ ہر وقت ہنسنے اور ہنسانے والے میرے پیارے دوست کا چہرہ آج سنجیدہ تھا۔ اس کی آنکھیں اداس تھیں۔ ان آنکھوں میں پورے شہر کی اداسی سمٹی ہوئی تھی۔ ایک دوست زبیر نواز چھٹہ کی بیٹی کی شادی پر ہم بہت سے پرانے دوست کافی عرصے بعد ایک دوسرے کو ملے تھے۔ طاہر ملک پنجاب یونیورسٹی لاہور میں میرا سینیئر تھا اور صحافت میں بھی مجھ سے سینیئر ہے۔ بہت سال پہلے وہ امریکا چلا گیا تھا۔ وہاں کی شہریت حاصل کرنا اور ڈالر کمانا اس کے لیے مشکل نہ تھا۔ لیکن لاہور کی محبت اسے واپس کھینچ لائی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب بھی وطن کی محبت میں امریکا چھوڑ کر واپس چلے آئے تھے۔

RelatedPosts

پنجاب کی 8 رکنی نگران کابینہ نے حلف اٹھا لیا

قمر باجوہ اور عمران خان کے باہمی الزامات پر تحقیقاتی کمیشن بننا چاہئیے

Load More

میں جب بھی لاہور جاتا ہوں تو طاہر ملک اور قاسمی صاحب کو ملنے کی خواہش دل میں ہوتی ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک مل جائے تو سمجھتا ہوں پورے لاہور سے مل لیا۔ اس مرتبہ طاہر ملک نے بتایا کہ پچھلے تین ماہ سے اس کا گلا خراب ہے۔ جب بھی وہ ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ لاہور کی فضا میں سانس لینے کا مطلب ہے کہ آپ سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس لیے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یہ شہر چھوڑ دیں۔ طاہر ملک نے مجھے مخاطب کر کے پوچھا؟ میں لاہور کو چھوڑ کر کدھر جاؤں؟ دوسرے الفاظ میں لاہور مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں لاہور کو چھوڑ کر کہاں جاؤں؟ ایک اور صحافی دوست سعید قاضی بھی گفتگو میں شامل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ لاہور کے آسمان پر رات کو تارے نظر نہیں آتے۔ وہ پچھلے دنوں چکوال گیا تو رات کو آسمان پر تارے دیکھ کر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ لاہور چھوڑ دے۔ سعید قاضی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ اسلام آباد کے آسمان پر تو تارے نظر آتے ہوں گے؟ میرا جواب سننے سے پہلے ہی کہنے لگا کہ میں اسلام آباد منتقل ہونا چاہتا ہوں۔

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث لاہور میں ہر دوسرا شہری ہجرت کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ طاہر ملک اور سعید قاضی کی گفتگو سن کر میری نظروں کے سامنے مستنصر حسین تارڑ کا چہرہ گھومنے لگا۔ تارڑ صاحب نے اپنی کتاب ”لاہور آوارگی‘‘ میں اردو زبان کی عظیم ادیبہ قرة العین حیدر کے ساتھ اپنے ایک مکالمے کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل لاہور کا سفر نامہ ہے۔ ایک دفعہ تارڑ صاحب نے قرة العین حیدر کو لاہور شہر کی سیر کرائی۔ کتاب کی ابتداء میں ہی تارڑ صاحب نے ”قرة العین حیدر کا لکھنو اور میرا لاہور‘‘ کے عنوان سے ایک باب میں لکھا ہے کہ جب میں عینی آپا کو اندرون لاہور کے گلی کوچوں میں لے کر گیا تو انہوں نے کہا یہ تو ہو بہو پرانا لکھنؤ ہے۔ اس پر مستنصر حسین تارڑ نے ڈرتے ڈرتے جواب میں کہا، ” عینی آپا لکھنو اور لاہور میں ایک فرق ہے۔ وہ لکھنو تو کب کا مر چکا… اور یہ لاہور زندہ ہے۔‘‘

تارڑ صاحب کو جس لاہور کی زندگی پر ناز تھا وہ لاہور آج سسک سسک کر مر رہا ہے۔ لاہور کے شہری ہوا میں نہیں بلکہ ہر طرف چھائے زہریلے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں۔ اس دھوئیں کا سائنسی نام سموگ ہے۔ سموگ کبھی نظر آتی ہے اور کبھی نظر نہیں آتی۔

لاہور کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ پھر باغ اجڑ گئے، ان پر ہاؤسنگ اسکیمیں بن گئیں۔ انسانوں نے اپنے گھر بنانے کے لیے پرندوں کو بے گھر کر دیا۔ بلبل، مینا، چڑیاں اور بہت سے دیگر خوبصورت پرندے لاہور سے ہجرت کر رہے ہیں۔ شہر میں ہر طرف کوے اور چیلیں نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوے اور چیلیں شہر کی موت کا انتظار کر رہی ہیں۔ تاکہ وہ مردہ شہر کی لاش کو نوچ سکیں۔

میں لاہور میں بڑے بڑے سیاستدانوں کو بھی ملا۔ صرف چودھری اعتزاز احسن نے مجھے اپنی ایک نظم کے ذریعے شہر میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر تشویش سے آگاہ کیا۔ باقی سب حکومت اور اپوزیشن والے ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف تھے۔ ان سیاسی لوگوں نے اپنے صاف ستھرے لباس پر گندگی سے بھری زبانیں سجا رکھی ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ لاہور کے آسمان سے تارے کیوں غائب ہوگئے؟ کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ جو شہر پاکستان کا دل کہلاتا تھا، اس شہر میں صاف پانی اور صاف ہوا، خواب کیوں ہوگئے؟

کیا وہ نہیں جانتے کہ اگر لاہور بیمار ہے تو پاکستان کا دل بیمار ہے اور اگر دل کی دھڑکنیں ماند پڑ گئیں تو ایک ایٹمی طاقت کیسے قائم رہے گی؟ کبھی اس شہر پر طنز کیا جاتا تھا کہ ”اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ آج لاہور کرپٹ اور ظالم حکمران طبقے کا قیدی ہے، جس کی نا اہلی کے باعث بارشوں کے موسم میں شہر ڈوب جاتا ہے اور بارش نہ ہو تو سموگ کے باعث شہر کا سانس رکنے لگتا ہے۔ لاہور، لاہور نہ رہا، پنجاب پنج آب نہ رہا۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین پر آج صرف تین دریا بہتے ہیں۔ لاہور کی پہچان راوی تھا۔ اس دریا میں آج گٹروں کے گندے پانی کی نالیاں نظر آتی ہیں۔ راوی کے پل سے دریا کو دیکھیں تو دریا نہیں بلکہ دریا کی لاش نظر آتی ہے۔

یہی حال دریائے ستلج کا ہے۔ 1960ء میں ان دونوں دریاؤں کا پانی ہندوستان کو مل گیا تھا۔  اب ان دریاؤں میں پانی اسی وقت آتا ہے جب ہمسایہ ملک ان میں اضافی پانی چھوڑتا ہے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر عمران خان تک، کسی حکمران نے ان دریاؤں کو زندہ رکھنے پر توجہ نہیں دی۔ بلکہ ان مردہ دریاؤں کو بھی لوٹا گیا۔ کبھی ان دریاؤں کی ریت چوری کی جاتی ہے تو کبھی ان دریاؤں کی زمین پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنائی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ بہت آگے ہیں۔ ایئر کوالٹی کے عالمی انڈیکس کے مطابق، اس وقت دنیا کا سب سے آلودہ شہر لاہور ہے۔ دہلی دوسرے نمبر پر ہے۔ ڈھاکہ چوتھے، تہران ساتویں، کلکتہ نویں اور ممبئی دسویں نمبر پر ہے۔ کچھ دن پہلے تک کراچی بھی دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں شامل تھا۔ لیکن جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو کراچی کا نمبر نیچے چلا جاتا ہے۔

اس طرح آلودہ ترین شہروں میں کبھی لاہور پہلے نمبر پر آ جاتا ہے، کبھی دہلی پہلے نمبر پر آ جاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان ایٹمی طاقتیں ہیں لیکن فضائی آلودگی کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں۔ لاہور اور دہلی سمیت جنوبی ایشیا کے تمام بڑے شہروں کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک نظر آتی ہے۔ کروڑوں نفوس کے ان شہروں میں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کا دھواں، اس دھوئیں میں شامل ہو جاتا ہے جو صنعتی اداروں کی چمنیوں سے خارج ہوتا ہے اور رہی سہی کسر اس وقت نکلتی ہے جب کسان توڑی یعنی پرالی کو آگ لگاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں فضا کو آلودگی سے بچانے کے لیے قانون سازی ہوتی ہے اور پھر قانون پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں ملین ٹری سونامی کا شور تو بہت سنائی دیتا ہے لیکن جب ماحولیاتی تحفظ کے لیے گلاسگو میں عالمی کانفرنس ہوتی ہے تو پاکستانی وفد اس وقت اہم عالمی معاہدوں پر دستخط کی بجائے آپس میں لڑنے لگتا ہے۔ آپس میں لڑنے والے حکمرانوں کو اپنے دم توڑتے شہروں کی سسکیاں سنائی نہیں دے رہیں۔

جب کورونا وبا کا عروج تھا تو ڈاکٹر کہتے تھے کہ گھروں کے اندر ایک دوسرے کے قریب نہ بیٹھیں۔ دور، دور بیٹھیں۔ پھر ڈینگی آیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ گھروں کے باہر نہ بیٹھو۔ فضائی آلودگی پھیلی تو ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ شہر ہی چھوڑ دو۔ آج ایک شہر کے ڈاکٹر یہ کہہ رہے ہیں، کل اور شہروں کے ڈاکٹر بھی یہی کہیں گے۔ لاہور کے کروڑوں لوگ ہجرت کر کے کہاں جائیں؟ حکمرانوں کو یقین نہ آئے تو لاہور کی فضا میں سانس لے کر دکھا دیں۔

پلیز اس شہر کی سسکیاں سنیں۔ یہ شہر موت کے قریب ہے۔ پاکستان کے دل کو مرنے سے بچا لو۔


حامد میر کا یہ کالم DW Urdu پر چھپا۔

Tags: hamid mirlahorePollutionSmogحامد میرسموگفضائی آلودگیلاہور
Previous Post

تحریک انصاف کے اہم رہنما کا حکومت پر کرپشن کا الزام، چارج شیٹ پیش کردی

Next Post

‘سعودی عرب نے پاکستان کو 3 بلین ڈالر چار فیصد سود پر فراہم کئے’

حامد میر

حامد میر

حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔

Related Posts

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

by حسنین جمیل
فروری 7, 2023
0

سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک طبقہ دشت گردوں کا حمایتی ثابت کرنے کے لئے کمربستہ ہے۔ یہ خود ساختہ لبرل...

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

by بایزید خان خروٹی
فروری 7, 2023
0

کرکٹ کے ایک آزمائشی میچ کے لئے 11 کروڑ روپے دینے والا بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں 3 لاکھ ملازمین موجود...

Load More
Next Post
‘سعودی عرب نے پاکستان کو 3 بلین ڈالر چار فیصد سود پر فراہم کئے’

'سعودی عرب نے پاکستان کو 3 بلین ڈالر چار فیصد سود پر فراہم کئے'

Comments 2

  1. محمد عبدلحارث says:
    1 سال ago

    یہی رونا کراچی شہر کا بھی ہے۔

    جواب دیں
  2. اعجازاحمد says:
    1 سال ago

    شکر ھے حامد میر اپنے بڑے صحافتی راج سنگھاسن سے اتر کر لاھور کیلیے دکھی ھو گیا۔۔۔سموگ کو اسی بہانے سلام😥

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
1

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In