تحریکِ انصاف کے اپنے اراکین پارٹی کے خلاف بیانات دینے لگے

تحریکِ انصاف کے اپنے اراکین پارٹی کے خلاف بیانات دینے لگے
جمہوریت میں ایک ہی جماعت کے اندر مختلف قسم کی آوازیں ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ اسے تو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں تو یہ عام سی بات ہے کہ پارٹی اراکین پارٹی صدر کے رائے سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور پالیسیوں پر تنقید بھی۔ وہاں جماعتوں کے لیڈران خود بھی جمہوری انداز میں پارٹی کے اندر الیکشن لڑ کر منتخب ہوتے ہیں اور اس کے لئے ایک دوسرے کی پالیسیوں اور مختلف مسائل سے جھوجھنے کے طریقہ کار پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ اور پھر جو ہار جاتا ہے، وہ جیتنے والے کی حمایت بھی کرتا ہے، کبھی خوش دلی سے، کبھی نیم دلی سے۔

لیکن پاکستان یا بھارت جیسی 'کمزور' جمہوریتوں میں ایسا عموماً دیکھنے میں تبھی آتا ہے جب کوئی دھڑا یا شخص پارٹی سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر بیٹھا ہو۔ مسلم لیگ ق کے آخری چند ہفتوں کی حکومت ہو، 2013 کے اوائل میں پیپلز پارٹی اراکین ہوں یا پھر ماضی کی حکومتوں میں متعدد مواقع پر پارٹیوں میں ٹوٹ بھوٹ کا عمل، ہر بار حکومت کے جانے کے دنوں میں اس کے اپنے ہی اراکین اس کے خلاف تقاریر کرنے لگتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف میں بھی اس قسم کی آوازیں اٹھتی ہوئی نظر آئی ہیں جن میں سرِ فہرست این اے 1 پشاور سے پارٹی کے ایم این اے نور عالم خان کی آواز ہے جنہوں نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن ہارنے پر پارٹی کی کارکردگی کو اس کی وجہ قرار دیا اور کرپشن سے پاک خیبر پختونخوا کے بیانیے میں بھی پنکچر کرتے نظر آئے جب انہوں نے ایک پروگرام میں دعویٰ کیا کہ میری اپنی زمینوں پر جعلی کاغذات بنا کر قبضے کیے جا رہے ہیں، عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں، میں کیسے مان لوں کہ کرپشن ختم ہو گئی؟

نور عالم خان:

بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد نور عالم خان نے مختلف ٹی وی چینلز پر پارٹی کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ذات پر تو تنقید کی جا رہی ہے کہ رشتہ دار کی حمایت کی لیکن دوسرے بے شمار علاقوں سے جو پارٹی لیڈرن کے رشتہ داروں کو ٹکٹیں دی گئیں اور وہ شکست کھا گئے، اس کی ذمہ داری بھی کیا مجھ پر ڈالیں گے؟ انہوں نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے مہنگائی اور بجلی کی لوڈ شیڈنک کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ میں یہاں MNA ہوں، میری زمینیں جعلی کاغذات پر ٹرانسفر ہوتی ہیں، اسی خیبر پختونخوا میں، اسی پشاور میں۔ کہاں ہے وہ گڈ گورننس جس کے دعوے کیے جاتے ہیں؟ عمران خان کے ارد گرد جو لوگ ہیں وہ انہیں سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ارد گرد جو کرپٹ لوگ ہیں، انہیں ہٹانا چاہیے۔ انہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ بندا جب میرے ساتھ آیا تھا تب اس کے پاس کتنے پیسے تھے اور اب اس نے کتنی جائیداد بنا لی ہے۔ لیکن اگر آپ آنکھیں بند کریں گے اور سوچیں گے کہ کوئی بات نہیں، ایسے ہی چلتا رہے تو ایسے نہیں چلتا۔ کوئی بھی پارٹی عوام کے ساتھ دھوکہ کرے گی تو ایک نہیں، دو سہی لیکن بالآخر اسے اٹھا کر عوام باہر پھینک دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کہاں نہیں ہے؟ ہر جگہ کرپشن ہے۔ میں ثبوت کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ میری پارٹی ہے لیکن میں عوامی نمائندہ ہوں۔ لوگ گاڑی سے لینڈ کروزر اور لینڈ کروزر سے جہاز پر کیسے پہنچے ہیں؟ پی ٹی آئی کے ورکرز نے ان کو ووٹ دیا لیکن جو سوئنگ ووٹ ہوتا ہے وہ آپ کارکردگی نہ دکھائیں تو وہ دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ وہ اب بھی چلا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں آٹا، گھی سستا کریں گے، بجلی مہنگی نہیں کریں گے، گیس ہوگی تو ووٹ ملے گا۔ لیکن آٹے کی لائنوں میں لگنا پڑے گا تو لوگ ہمیں یہی کہتے ہیں کہ جی ووٹ دے دیں مگر ہمارا آٹا، گیس، بجلی تو پورا کریں نا۔ مزدور آدمی روز جا کر مزدوری کرے گا یا آٹے کی لائنوں میں لگے گا؟ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ لوگوں نے تحریکِ انصاف کو دو مرتبہ ووٹ تو دیا ہے نا، اب کیا ہو گیا ہے؟ اس پر بھی نور عالم خان کا کہنا تھا کہ آپ ایک دفعہ لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں، دو مرتبہ بنا سکتے ہیں، تیسری مرتبہ آپ کو مسترد کر دیں گے لوگ، آپ کو ڈلیور کرنا پڑے گا۔

میجر (ر) طاہر صادق خان

میجر (ر) طاہر صادق خان پنجاب کے ان سیاستدانوں میں سے ہیں جنہیں آپ مرغِ باد نما کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی چال کو دیکھ کر بندا سمجھ سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرف جا رہی ہے۔ جنرل مشرف دور میں یہ اٹک کے ضلع ناظم رہے۔ اتنے تگڑے تھے کہ 2008 میں انہوں نے اپنے حلقے سے چودھری پرویز الٰہی کو لڑوایا اور جتوایا۔ 2013 میں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل تھی تو یہ آزاد لڑے اور 2018 میں ظاہر ہے کہ یہ پاکستان تحریکِ انصاف کی ٹکٹ پر لڑ کر الیکشن جیتے۔

میجر طاہر صادق نے 23 دسمبر کو سماء پر ندیم ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے وزرا اور مشیران سرٹیفائیڈ نااہل ہیں۔ خان صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں، وہ حقیقتاً چاہتے ہیں کہ ملک میں بہتری آئے لیکن جو ٹیم ہے وہ سرٹیفائیڈ نااہل ہے، بڑے پائے کے نااہل ہیں۔ جب آپ اس ٹیم کے ساتھ جائیں گے تو کیا ڈلیور کریں گے؟ اس کے بعد انہوں نے فیصل واؤڈا کے مقدمے پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے اور میرے حساب سے وہ سو فیصد نااہل ہوگا کیونکہ اس نے اپنا کیس اس چیز سے کمزور کر لیا کہ قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر سینیٹ میں چلا گیا جس سے الیکشن کمیشن کو بھی یقین ہو گیا کہ یہ بیوقوف بنانے کی کوشش ہے۔

خواجہ عامر رضا

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اور پنجاب کے صوبائی عہدیدار خواجہ عامر رضا نے اپنے ایک بیان میں حکومت کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور حکومتی جماعت کی خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا ہے۔

اپنے بیان میں عامر رضا کا کہنا تھا کہ پارٹی کی خیبر پختونخوا میں کارکردگی اسے جگانے کے لئے کافی ہونی چاہیے۔ یہ شکست سیاسی شعور، حکمت عملی اور عوامی رابطے میں کمی کا منہ بولتا ثبوت ہے،

پارٹی رہنما نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی پیغام بھیجا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آپ تک اصل حقائق نہیں پہنچائے جا رہے اور آپ کے یہ مشیر اور معاونینِ خصوصی کسی کام کے نہیں ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان نکمے اور نااہل لوگوں سے جان چھڑائیں جن کو آپ نے ارد گرد اکٹھا کر رکھا ہے۔

عام آدمی شدید مشکل میں ہے اور اب ڈلیور کرنے کا وقت آ چکا ہے۔

یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام (ف) سے بڑی شکست ملی ہے جس نے ناصرف پشاور میں حکومتی جماعت کو شکست دی بلکہ چار میں سے 3 میئر بھی بنانے میں کامیاب ہو گئی جب کہ ایک میئر کی سیٹ عوامی نیشنل پارٹی کے حصے میں آئی ہے۔

انتخابات میں حکومت کے اہم لیڈران بشمول مردان، کوہاٹ، صوابی اور پشاور سے اپنے گھر کی نشستیں بھی نہ جیت سکے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.