جنوری کی آمد آمد، پارٹی ختم ہونے کے اعلان کا انتظار کیجیے

جنوری کی آمد آمد، پارٹی ختم ہونے کے اعلان کا انتظار کیجیے
گذشتہ بدھ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کو عجلت میں طے شدہ اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا کیونکہ وہ کورم پورا کرنے کے لیے تحریک انصاف کے اراکین کو اکٹھا نہیں کر سکے تھے۔ اگرچہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ کسی بھی دن ایسا ہوسکتا ہے۔ تاہم وہ اجلاس بطور خاص ایک وجہ سے اہم تھا۔ حکومت دو انتہائی اہم بلوں کو نافذ کرنے سے پہلے صورت حال کی جانچ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اگر بلوں کی منظوری کے لیے پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو اسے نتائج کا خوف ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ اپوزیشن غیر معمولی شور و غوغل مچائے گی کیونکہ دونوں بل عوام کی نگاہ میں غیر مقبول ہیں۔ ایک قومی خود مختاری کو زک پہنچاتا ہے تو دوسرا عوام پر نئی مشکلات کا انبار لادتا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد مہنگائی اور معاشی بدانتظامی کی وجہ سے حکمران جماعت کے اراکین قومی اسمبلی کسی بھی بل کی حمایت کرنے سے گریزاں ہیں۔

پہلا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو وزارت خزانہ کے کنٹرول سے آزاد کرنے کا بل ہے۔ دوسرا مالیاتی بل ہے جو محصولات میں اضافہ اور اخراجات میں نمایاں کمی کرکے (ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کو ختم کرکے اور اضافی درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس لگا کر) اضافی بجٹ لگاتا ہے۔

دونوں بل آئی ایم ایف کے بنیادی ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے ساتھ ٹریک پر واپس آنے کے لیے پیشگی شرائط ہیں۔ ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے پاکستان ایک بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی دوسری قسط حاصل کرنے کی آس لگائے ہوئے ہے۔

ان دونوں بلوں کو واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس سے پہلے اگلے ایک یا دو ہفتوں میں منظور ہونا ضروری ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے لیے پارلیمانی بل کی بجائے صدارتی آرڈیننس قبول کرنے کی درخواست کر رہی ہے لیکن آئی ایم ایف نے صاف انکار کر دیا ہے۔

یہ جانتا ہے کہ ایک آرڈیننس صرف چار ماہ کے لیے کارآمد ہے اور اس کی کوئی مستقل اہمیت نہیں ہے۔ مالیاتی بل زیادہ اہم ہے۔ اگر یہ دونوں ایوانوں سے منظور ہونے میں ناکام رہتا ہے، تو آئین اس معاملے کو حکومت پر عدم اعتماد کے ووٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس صورت میں اراکین اسمبلی کی اکثریت کے اعتماد کے ووٹ کی بنیاد پر نئی حکومت تشکیل دینی پڑتی ہے یا اگر کوئی بھی اکثریت نہ دکھا سکے توتازہ انتخابات کی طرف جانا پڑتا ہے۔

اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں اسی دن کابینہ کے اجلاس نے اعلان کیا کہ اس نے دونوں بلوں کو غیر معینہ تاریخ تک موخر کر دیا ہے۔ آخری مرتبہ عمران خان رواں ماہ کے شروع میں ووٹ دینے کے لیے اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

اس وقت دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے دوران حکومت نے پارلیمنٹ میں 33 بلوں کی ریل پیل کردی تھی جب کہ اُنھیں پڑھ کر بھی نہیں سنایا گیا تھا۔ لیکن ایسا صرف اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غیر دانشمندانہ مداخلت سے ممکن ہوا جس نے ناراض اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کیا تھا۔ تاہم اس بار عمران خان کو یقین نہیں کہ وہی مدد آنے والی ہے یا نہیں۔ یقیناً مذکورہ دست تعاون خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کے دوران دستیاب نہیں تھا۔ اس سے زمینی حقائق کی تصدیق ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے 2018ء میں تحریک انصاف کی جیت دلانے کے لیے ایک جھوٹی صورت حال پیدا کی گئی تھی۔

گیند اب اسٹیبلشمنٹ کے کورٹ میں ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر عمران خان کو اپنا کندھا فراہم کر دیتی ہے جب کہ عمران خان کے خلاف عوامی جذبات اپنے عروج پر ہیں تو یہ شدید تنقید کی زد میں آجائے گی۔

اس سے اسٹیبلشمنٹ کی اپنی صفوں میں بے چینی کی لہر دوڑ جائے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو عمران خان کی حکومت مفلوج ہو جائے گی۔ اسے چلتا کرنے کے امکانات دکھائی دینے لگیں گے۔ اس پر عمران خان کی طرف سے بھی ردعمل آسکتا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت کی جگہ کسی ایسے شخص کو لانے کی کوشش کر سکتے ہیں جو انہیں سہارا دیے رکھے۔ لیکن اس پیش رفت کے خلاف غیر متوقع ادارہ جاتی ردعمل آسکتا ہے۔ اس کے شدید نتائج نکل سکتے ہیں۔ یا پھر عین ممکن ہے کہ نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے وہ خود ہی گھر چلے جائیں۔

اپوزیشن یہ جاننے کے لیے انتظار نہیں کر رہی کہ عمران خان کیا کریں گے یا اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل کیا ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے اعلان کیا ہے کہ وہ دباؤ بڑھانے کے لیے احتجاجی تحریک شروع کرنے جا رہی ہے۔

عوام کے ناراض موڈ کے پیش نظر تھوڑا سا بھی کامیاب دھکا حکومت کے قدم ڈگمگا دے گا۔ تحریک لبیک کے احتجاج کے بعد شورش پسندوں کی بجائے پنجاب پولیس کو زک پہنچی تھی۔ اس کے بعد مشکل ہے اگر پولیس اس کے احکامات کی تعمیل میں کوئی تندہی دکھائے۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی مدد کے لیے قدم بڑھاتی ہے تو یہ حزب اختلاف خصوصاً نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو ایک بار پھر اس کے افسران پر غیر آئینی مداخلتیں کرنے کا الزام لگائیں گے۔ اس سے ادارے کے چھوٹے بڑے افسران پر وہی منفی اثرات مرتب ہوں گے جیسا کہ پچھلی بار ہوا تھا جب دونوں حضرات نے نام لے لے کر تنقید کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

اندرونی ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے آخرکار فیصلہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کی مزید حمایت نہیں کر سکتی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی حمایت کھونے کے خطرے سے دوچار ہو چکی ہے۔ درحقیقت حکومت کے قریبی ایک معروف ٹی وی چینل کے مطابق نواز اور شہباز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ تاہم عمران خان سے جان چھڑانے اور نئی حکومت کے قیام کے لیے مشترکہ طور پر اقدامات کیے جانے سے پہلے صرف ایک یا دو رکاوٹیں عبور کرنا باقی ہیں۔

ملک جلد ہی عام انتخابات کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اس کے اشارے ظاہر ہو رہے ہیں۔ نواز شریف نے عوامی طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی پاکستان واپس آئیں گے اور مریم نواز نے عوامی طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگلا وزیراعظم نواز شریف ہی منتخب کریں گے۔

جنوری کی آمد آمد ہے۔ پارٹی ختم ہونے کے اعلان کا انتظار کیجیے۔ یا تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ آ جائے گا یا پھر وہ نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے خود ہی گھر کی راہ لیں گے۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نکی حمایت یافتہ حکومت مختصر مدت کے لیے اقتدار سنبھال کر کچھ مخصوص کام سرانجام دے گی۔ اس کے بعد پارلیمنٹ تحلیل کرکے تازہ انتخابات کا میدان سجے گا۔

نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔