سال کا سب سے نتیجہ خیز تنازع ISI سربراہ کی تعیناتی تھا جس نے سیاست کا رخ بدل دیا

سال کا سب سے نتیجہ خیز تنازع ISI سربراہ کی تعیناتی تھا جس نے سیاست کا رخ بدل دیا
دل شکستگی۔ مایوسی۔ امید کا ٹوٹنا۔ لڑکھڑاتے ہوئے اپنے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے اس سال کی تعریف کے لئے آپ ان میں سے کوئی سا بھی لفظ چن لیجیے۔ 2021 میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر موجود تمام سیاسی کھلاڑیوں نے اپنے مقاصد کے حوالے سے ناکامی کا منہ دیکھا۔ اس سال کے اختتام پر کوئی بھی کلینڈر کو فخر سے نہیں دیکھ رہا ہوگا۔

اس سال وہ سب کچھ نظر آیا جسے ہماری سیاست میں غلط، کمزور یا ناکافی کہا جا سکتا ہے۔ حکومت گورننس نہیں دکھا سکی، اپوزیشن مسائل کو اجاگر نہیں کر سکی اور اسٹیبلشمنٹ وہ ختم کرنے میں ناکام رہی جو اس نے شروع کیا تھا۔ غیر یقینی کی اس کیفیت میں سب واپس ڈرائنگ بورڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن کیا انہوں نے درست سبق حاصل کر لیے ہیں؟

پیچھے مڑ کر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی 2018 کی فتح سے کبھی سنبھل ہی نہیں پائی۔ جس دن سے وزیر اعظم نے اگست 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا ہے، یہ نیچے ہی نیچے جا رہی ہے۔ اس کے بعد سے آنے والے ہر سال میں حکومت کی کارکردگی پچھلے سے بدتر رہی ہے، اس کی ساکھ پہلے سے کم ہوئی ہے اور حکمرانی کے لئے اس کی اہلیت پر پہلے سے زیادہ سوالات اٹھے ہیں۔ اس نے 2022 اقتدار میں نکال بھی لیا تو یہ ایک کمزور حکومت ہوگی اور اپنی ماضی کی طاقت کا محض ایک عکس۔ اگر کسی ثبوت کی ضرورت تھی تو خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں اسے ہوئی شکست نے وہ بھی فراہم کر دیا ہے۔

سال 2021 خصوصی طور پر پارٹی کے لئے مشکل ثابت ہوا۔ گو کہ مہنگائی کا جن پہلے بھی موجود تھا لیکن اس سال یہ حقیقتاً لوگوں کے گھریلو بجٹ ہلا کے رکھ گئی ہے اور حکومت کی بچی کھچی عزت بھی پامال کر گئی ہے۔ اس میں سارا قصور حکومت کا نہیں – کورونا کے دوران پوری دنیا میں ہی مشکل صورتحال تھی – لیکن بہت کچھ حکومت کا ہی کیا دھرا تھا۔ اور اب بھی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی ترسیل کو مینیج کرنے میں حکومت کی نااہلی، اور جس ڈانواں ڈول انداز میں اس نے معیشت کا پہیہ چلایا، اس سے مہنگائی میں مزیدد اضافہ ہوا۔ آج بھی اس کے خاتمے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔

شاید اتنا ہی نقصان حکومت کے تیسرے سال میں بھی ہر چیز کا الزام اپوزیشن کو دینے اور گورننس کے لئے ایک واضح لائحۂ عمل دینے میں ناکامی نے بھی پہنچایا۔ کوشش اس نے بھلے کی ہو – اور کوئی زیادہ کوشش بھی نہیں کی – لیکن یہ تاثر زائل کرنے میں بھی یہ ناکام رہی کہ یہ پاکستان جیسے پیچیدہ ملک کو چلانے کی اہل ہے۔ جتنا زیادہ اسے گورننس میں مشکلات پیش آتیں، اتنا ہی یہ اپوزیشن کو لعن طعن کرتی اور وہ بھی اس زبان میں جو 2018 سے پہلے مستعمل تھی۔ خود کو گڑھے میں سے نکالنے کے لئے اسے مزید کھودتے چلے جانا کبھی کبھی ایک اچھی حکمتِ عملی نہیں رہی۔

سال کے اختتام پر پی ٹی آئی 2021 کی شروعات کے مقابلے میں بدتر حالت میں ہے۔ پہاڑوں سی مشکلات سر اٹھا رہی ہیں اور یہ بمشکل ہی خود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ مخالفین ایک تازہ حملے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔ حکومت کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے۔ کیا پارٹی نے اس سال سے درست سبق حاصل کیا ہے؟ یا کوئی بھی سبق حاصل کیا ہے؟ پارٹی مانے یا نہ مانے لیکن اس سوال کا جواب اس کے لئے انتہائی اہم ہے۔

دوسری طرف PMLN اب ناگواری سے تسلیم کر رہی ہے کہ اس نے کچھ سبق سیکھے ہیں۔ پورا سال پارٹی حکومت سے بھی لڑتی رہی، اپنے آپ سے بھی، اور دونوں ہی محاذوں پر کامیاب نہیں ہو پائی۔ نہ تو PDM کے پلیٹ فارم سے اور نہ ہی اپنے بل پر مسلم لیگ ن حکومت کو پنجاب اور وفاق میں گرانے کے مقاصد میں کامیاب ہوئی۔ پارٹی میں بیانیوں کا ٹکراؤ بار بار سر اٹھاتا رہا اور کئی بار پارٹی رہنماؤں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی سامنے آئی۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ جنگ تھمنے میں آئے گی۔ بجٹ کے بعد لگ رہا تھا کہ PTI اپنی مدت کے اختتام تک بغیر کسی رکاوٹ کے بگٹٹ بھاگتی چلی جائے گی جب کہ PMLN اپنے ہی تضادات میں الجھی رہے گی۔

تاوقتیکہ ایک غیر متوقع مقام سے امداد آ گئی – یعنی خود وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے۔

آئی ایس آئی سربراہ کی تعیناتی پر کھڑے ہوئے تنازع نے مسلم لیگ ن کو وہ خلا فراہم کر دیا جو اس کو مل نہیں رہا تھا۔ تاہم، PTI کو اقتدار میں لانے پر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے والی PMLN ابتدائی ہفتوں میں کنفیوز تھی کہ اب اس سے بات کیسے کرے۔ اب لگ رہا ہے کہ پارٹی قیادت کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ اگر اسے واپس اقتدار میں آنا ہے تو کمرے میں موجود ہاتھی سے مثبت انداز میں ڈیل کرنا ہوگا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے لیکن یہ قدرے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی نے سال کا آغاز جس مقام سے کیا تھا، اس کا اختتام اس سے بہتر مقام پر کر رہی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ بھی بہت سی اونچ نیچ سے گزری ہے اور سال کا سب سے نتیجہ خیز تنازع ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا ہی تھا۔ اس ایک واقعے نے سیاست کا رخ تبدیل کر دیا اور اس تقرری سے جڑے سیاسی مفادات کے حجم کی وجہ سے اب تک اس کے آفٹر شاکس جاری ہیں۔ اب بڑے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ترازو کو برابر کرنا چاہتی ہے۔ اس کے نتائج آنے والے ہفتوں میں نظر آئیں گے۔ لیکن ادارے نے بڑے پرزور طریقے سے بتا دیا ہے کہ فوج کے اندر کے تقرر و تبادلے سیاسی قیادت کے اختیار سے باہر ہیں۔ یہ پیغام تمام متعلقہ لوگوں تک خاصے واضح انداز میں پہنچ گیا ہے۔

سال 2021 بالکل ایک نیٹ فلکس سیزن کی طرح ایک بڑے ہی پراسرار انداز میں کہانی کے ایک پیچیدہ موڑ پر ختم ہوا ہے۔ اگلا سیزن جو ایک ہفتے میں شروع ہونے جا رہا ہے، سب سے بڑے سوال سے جھوجھے گا: کیا تبدیلی آنے والی ہے یا حکومت یہ چیلنج بھی سہار جائے گی؟ تمام کرداروں کو اگلے سیزن میں ایک بار پھر نئے چینلنجز سے نمٹتا دیکھیے، ایک ایسی جنگ میں جس میں کم ہی کردار فاتح ہوں گے۔

امید ہے کہ 2022 پاکستان میں استحکام لائے گا اور ہمارے نارمل ملک بننے کی راہ صاف کرے گا۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں چھپا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔