ہندو کمیونٹی ٹیری کے عوام کے لئے مسیحا بن گئی

ہندو کمیونٹی ٹیری کے عوام کے لئے مسیحا بن گئی
2022 کو مذہبی سیاحت کا سال منانے کے لئے رامیش وانکوانی کی کل ٹیری سمادھی کا دورہ ایک سنگ میل ثابت ہونے لگا ہے ۔ جس کے لئے ان کی کوشیشیں جاری تھیں اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوگئے۔ اب اس سمادھی کی سیر کے لئے دور دور سے آئیں گے۔



اس کے برعکس آج ٹیری میں ٹیری سول ہسپتال کے ڈاکٹر فیض اللہ نے پی ٹی آئی کی حکومت کا کٹھا چھٹا رامیشن وانکوانی کے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ تو دل کو ٹھنڈک ملی اور داد دینے کو جی چاہا اور ایسی باتیں کیں جو کسی سرکاری ملازم کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ حکومتی اراکین پر اعتراض کریں ۔



مگر ڈاکٹر صاحب نے ٹیری میں رہنے کا حق ادا کردیا جب اس نے رامیش وانکوانی کو کہا کہ مجھے پی ٹی آئی حکومت کام کرنے کے لئے نہیں چھوڑ رہی اس کا اشارہ ایم این اے کی جانب تھا جو پہلے دن سے ہی ایک فرعون بنا ہوا ہے اور اس ہسپتال کے متعلق اس کا موقف ہے کہ یہاں لیڈی ڈاکٹر موجود ہے اور تیمور جھگڑا جو کہ ہیلتھ ریفارمز کی بات کرتے نہیں تھکتا وہ گزشتہ سال ایم این اے کے ساتھ دورہ کر چکا جہاں اُس نے جھوٹے وعدے دلائے کہ یہ سب کچھ ہوجائے گا ۔اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ یہ عوام کو لولی پاپ دیا گیا ہے تو میرے کچھ دوست ناراض ہوگئے تھے۔



آج ڈاکٹر فیض اللہ نے وہی باتیں کیں جو ہم برسوں سے کرتے آرہے ہیں مگر اس کا نتیجہ نہیں نکل رہا ہے ۔ اس وقت رمیش وانکوانی نے کچھ بہترین آئیڈیاز دیئے کہ ہسپتال کے لئے ہم چیف سیکرٹری، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم عمران خان سے بات کریں گے کہ وہ اسی ہزار کی آبادی کے لئے ڈاکٹرز سمیت دیگر سٹاف اور آلات کی تنصیب کے لئے اقدامات کریں کیونکہ یہ علاقے کے ساتھ زیادتی ہے اور اب چونکہ ٹیری سے ریلیجیس ٹوورازم کی شروعات ہوچکی ہے اور اب دنیا بھر سے ہندو زائرین ٹیری وزٹ کریں گے۔



ان زائرین کی تعداد لاکھوں میں ہے، گزشتہ روز دوسو سے زیادہ زائرین انڈیا سے آئے اور انہیں ٹیری کے لوگوں نے اپنے گھروں میں جگہ دی کیونکہ سمادھی کے اندر اتنے بڑے انتظامات نہیں ہوئے تھے جس میں حکومت کی کمزوری واضح تھی۔ ایک سال پہلے جب لوگوں میں ایک جنون پیدا کیا گیا تھا جب انہوں نے سمادھی پر حملہ کیا تھا، آج حالات بالکل بدل چکے ہیں، اب علاقے کے لوگ اپنے علاقے کی فلاح کے لئے سوچ رہے ہیں ۔انہیں علاقے سے مطلب ہے جو کہ اب تک کسمپرسی کا شکار ہے۔ جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ، یہاں ترقی کے لئے کسی نے بھی نہیں سوچا ۔



گزشتہ روز کے ہندوؤں کے دورے اور پھر ہندو کمیونٹی کے سرکردہ رہنماؤں کا ٹیری سول ہسپتال دورہ اور وہاں جو باتیں ہوئیں اس نے یہ سوچنے پر کم ازکم مجھے مجبور کردیا ہے کہ ہندو کمیونٹی ایک مسیحا کے طور پر ہمارے علاقے میں داخل ہوئے ہیں جن کے آنے سے شاید یہ علاقہ ترقی کرسکے گا۔ اگر حکومت نے ادارے ٹھیک نہیں کئے تو شاید یہ ہندو کمیونٹی اداروں کو ٹھیک کرنے کا بیڑہ اٹھالے جس طرح آج رامیش وانکوانی نے کہا کہ اگر حکومت اس ہسپتال کو ٹھیک نہیں کرسکتی تو ہم اس ہسپتال کی ذمہ داری لیتے ہیں اوریہ ہسپتال حکومت کے زیر تسلط ہوگا مگر اس کا نام ہم اپنے گرو پرماہانس کے نام پر رکھ لیں گے اور اس کی پھر ساری ذمہ داری ہماری ہوگی ۔



مگر اس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کی نوبت نہیں آئے گی اور حکومت اس ہسپتال کے لئے بہتر اقدامات اٹھالے گی جس کے بعد ہندو کمیونٹی کے یہ رہنما ٹیری کے رہائشیوں کے لئے مسیحا ہی بن گئے جن کی بدولت 1890کو قائم شدہ ہسپتال ایک بہترین ہسپتال بن جائے گا جو کہ اہلیان علاقہ کی دیرینہ خواہش ہے ۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔