’یہ قیامت کی رات تھی، یقین نہیں تھا ہم صبح تک زندہ رہیں گے‘، سانحہ مری میں بچ جانے والوں کی روداد

’یہ قیامت کی رات تھی، یقین نہیں تھا ہم صبح تک زندہ رہیں گے‘، سانحہ مری میں بچ جانے والوں کی روداد
کلڈنہ کے مقام پر برفباری میں پھنسے پانچ دوستوں نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں گذشتہ رات گاڑیوں میں لگ بھگ 21 سیاحوں کی اموات ہوئی تھی۔

یہ پانچوں دوست نجی کام کے سلسلے میں ایبٹ آباد پہنچے اور وہیں سے واپسی پر مری کی سیر کا پروگرام بنایا۔ انہوں نے سانحہ سے ایک رات قبل نتھیا گلی میں قیام کیا۔ نتھیا گلی سے کل صبح نکلے اور مری کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ لوگ دریا گلی کے مقام پر پہنچے تو راستہ بند تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ برفباری شدید تھی لیکن سڑک بند ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کئی سیاح اپنی گاڑی روڈ پر ہی کھڑی کرکے چلے گئے تھے اور دوسری گاڑیوں کا راستہ بند ہو گیا۔

یہ لوگ مری سے چند کلومیٹر پہلے ہی بری طرح پھنس گئے۔ رات کو شدید برفباری شروع ہوئی تو پانچوں گاڑی میں دبک کر بیٹھ گئے۔ ان لوگوں نے عقل مندی یہ کی کہ کچھ وقت کیلئے ہیٹر چلاتے، پھر بند کر لیتے۔ سب نے بغیر سوئے پوری رات گزاری۔ جبکہ ہوا کی کراسنگ کیلئے انہوں نے تھوڑے تھوڑے شیشے بھی کھلے رکھے۔

خیال رہے کہ سانحہ مری لوگوں کی زیادہ اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ انہوں نے شیشے بند کرکے گاڑیوں میں ہیٹر چلائے اور اندر ہی سو گئے۔ ہوا بند ہونے کی وجہ سے ان کا دم گھٹ گیا۔

اسی مقام پر اسلام آباد کے رہائشی ایک نوجوان نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی مری جا رہے تھے مگر ان کی گاڑی بھی برفباری کی وجہ سے پھنس گئی۔ وہ سینکڑوں سیاحوں کیساتھ گاڑیوں میں پھنسے رہے۔ جن لوگوں کو اردگرد کسی محفوظ جگہ کا پتا تھا وہ گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے۔ جو ناواقف تھے، وہ رات بھر کسی غیبی مدد کا انتظار کرتے رہے۔

رات کو روشنی اور کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ جو لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا پانی یا گرم کپڑے لے کر آئے ان کے لیے پھر کچھ نہ کچھ آسانی تھی۔ جو خالی ہاتھ آ گئے ان کا برا حال رہا۔

برف باری کی وجہ سے رات بھر درخت ٹوٹ کر گاڑیوں پر گرتے رہے۔ جیسے ہی کوئی درخت گرتا، چیخ و پکار شروع ہو جاتی۔ گاڑیوں پر درخت گرنے کی وجہ سے کئی لوگ زخمی ہوئے مگر انہیں وہاں سے ہسپتال لے جانے کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی انہیں وہاں پر فرسٹ ایڈ دی جا سکتی تھی۔ خوف اتنا تھا کہ کوئی گاڑیوں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں تھا۔

اس کے بقول صبح روشنی پھیلنا شروع ہوئی تو ہر طرف ایک سکوت تھا۔ زندہ بچ جانے والوں نے گاڑیوں سے برف ہٹانا شروع کی۔ شیشوں پر دستک دے کر لوگوں کو جگانا شروع کیا۔ کچھ گاڑیوں میں لوگ جاگ رہے تھے۔ وہ بھی باہر نکل آئے۔ کچھ گاڑیوں میں لوگ بے ہوش تھے۔ انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی۔

ایک گاڑی میں 4 نوجوانوں موجود تھے۔ لوگوں نے انھیں ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ ان کا کافی دیر کوشش کے بعد بھی وہ ہوش میں نہیں آئے۔ ان میں سے تین مر چکے تھے۔ ایک کی سانس چل رہی تھی۔ بعد میں اس کی بھی موت ہو گئی۔

صبح کے وقت اس مقام کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں تو راولپنڈی، اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی۔ مقامی لوگوں، پولیس، ریسکیو 1122 کے علاوہ پاکستانی فوج کے دستے بھی برف میں پھنسے لوگوں کو نکالنے وہاں پہنچے۔