بلدیاتی انتخابات میں شکست کے آفٹر شاکس: PTI کی خیبر پختونخوا سے ایک دن میں دو وکٹیں گر گئیں

بلدیاتی انتخابات میں شکست کے آفٹر شاکس: PTI کی خیبر پختونخوا سے ایک دن میں دو وکٹیں گر گئیں
خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی شکست سے صوبے کی سیاست میں آنے والے 8۔5 ریکٹر سکیل کے زلزلے کے آفٹر شاکس ابھی تک آنا رکے نہیں ہیں۔ بھلے ہی وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی کی تنظیمیں توڑ کر نئے عہدیدار نامزد کر دیے ہوں، شکست کا سارا ملبہ پرانے عہدیداروں اور ان کی جانب سے کیے گئے ٹکٹوں کے فیصلوں پر ڈال دیا ہو لیکن مقامی سیاستدان جانتے ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ حکومت کو اس وقت اپنی خراب کارکردگی، خصوصی طور پر بڑھتی مہنگائی اور مسلسل گرتی معیشت کی وجہ سے شدید عوامی غم و غصے کا بھی سامنا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اب اس کے نتائج بھی آنا شروع ہو چکے ہیں۔ صوبے میں پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر جو پانچ سال تک وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور جن کی کارکردگی کے دن رات گن گاتے عمران خان تھکتے نہ تھے، پرویز خٹک ہیں۔ ان کو عمران خان نے پارٹی کا صوبائی صدر اب نامزد کر دیا ہے لیکن ان کے اپنے شہر نوشہرہ تو چھوڑیے، ان کے اپنے خاندان میں اس وقت ایک بھونچال برپا ہے۔ ان کے بھائی لیاقت خٹک اور بھتیجا احد خٹک پہلے ہی بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ جلسے میں پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب ان کے بھانجے جلال خٹک نے بھی مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام سے ملاقات کی ہے اور لیگی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کا کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیں اور 12 جنوری بروز بدھ اس کا اعلان بھی کر دیں گے۔

دوسری جانب نور عالم خان ہیں جنہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف پر حال ہی میں نہ صرف میڈیا میں بلکہ پارلیمنٹ میں بھی کھل کر تنقید کی تھی۔ پارلیمنٹ میں تقریر کرنے پر ان کو اپوزیشن کی جانب سے بھرپور داد ملی اور پھر حکومتی وزیر حماد اظہر کی جانب سے ان پر تنقید بھی کی گئی کہ یہ اپوزیشن سے اپنے حق میں ڈیسک بجوانے کے لئے تقاریر کر رہے تھے جب کہ تنقید کا نشانہ ان کی اپنی پارٹی تھی۔ یاد رہے کہ نور عالم خان نے PTI کی بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد بھی پارٹی کی کارکردگی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا جب PTI کے ایک اور سینیئر رہنما نے میڈیا میں آ کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ نور عالم خان کے بہنوئی جمعیت علمائے اسلام (ف) سے الیکشن لڑ رہے تھے اور نور عالم خان نے ان کی بھرپور حمایت کی تھی۔ نور عالم خان نے کہا تھا کہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم نہیں بلکہ حکومتی کارکردگی کی وجہ سے پارٹی کو شکست ہو رہی تھی۔ ایک حکومت جس میں آٹے اور چینی کے لئے لائنیں لگی ہوں، دوائیاں مسلسل مہنگی کی جا رہی ہوں، بجلی کئی کئی گھنٹے دوبارہ سے غائب ہونے لگی ہو، اس کو غلط ٹکٹوں کی کیا ضرورت ہے جب اس کے ہارنے کے لئے اس کی اپنی کارکردگی اس حد تک خراب ہو۔

اب مسلم لیگ ن کے ایم این اے شیخ روحیل اصغر کے عشائیے پر جہاں بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پارلیمانی لیڈر اسد الرحمان سمیت اپوزیشن کے متعدد رہنما موجود تھے، نور عالم خان نے یہاں گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلا الیکشن PTI کی ٹکٹ پر نہیں لڑیں گے۔ عشائیے کے دوران حکومتی رکن نور عالم خان سے پوچھا گیا کہ آپ اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑیں گے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ طے ہے کہ آئندہ تحریک انصاف سے الیکشن نہیں لڑوں گا۔ جس پر مولانا اسد نے کہا کہ نور عالم خان اور میرے چچا مولانا عطا الرحمان کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔

نور عالم خان نے کہا ہے کہ میرے اوپر الزام ہے کہ میں نے اپنے بہنوئی کی پیسے لے کر حمایت کی، یہ کیسا بھونڈا الزام ہے جس پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نور عالم نے غیرت مندی کا ثبوت دیا اور بہنوئی کی حمایت کی۔

یاد رہے کہ نور عالم خان کے بہنوئی جمعیت کے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑے تھے اور اب اسد الرحمان کا کہنا ہے کہ ان کے چچا کی بات چیت چل رہی ہے جس پر سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مولانا کی جماعت کی شاندار فتح کے بعد بہت سے 'electables' کا رخ اب ان کی جماعت کی طرف ہو سکتا ہے کیونکہ لوگوں کو ان کی ہوا چلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اور جو لوگ کسی ایسے علاقے سے ہوں گے جہاں مولانا کی جماعت اتنی مضبوط نہیں ہوگی، وہاں ن لیگ کی طرف بھی ان لوگوں کا رخ ہو سکتا ہے جیسا کہ جلال خٹک کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔

نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی مزمل سہروردی نے کہا کہ 2018 میں بھی بہت سے لوگ ایسے یقیناً ہوں گے جو PTI سے دوسری جماعتوں کی طرف جانا چاہتے ہوں گے لیکن انہیں روک دیا گیا، دوسری جماعتوں سے توڑ کر لوگ PTI میں شامل کروائے گئے، ن لیگ کے لوگوں کو کہا جاتا تھا کہ آپ پارٹی کا ٹکٹ لے تو لیں لیکن آپ نے جمع نہیں کروانا، ن لیگ اور PTI کے درمیان buffer zone قائم کر دیے گئے جہاں سب کا پارٹی میں یکایک شمولیت اختیار کرنا ممکن نہیں تھا، (غالباً ان کا اشارہ جنوبی پنجاب محاذ کی جانب تھا) لیکن اب الٹا ہو یہ رہا ہے کہ لوگ PTI چھوڑ کر دوسری جماعتوں کی طرف جا رہے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی تبدیلی آئی ہے جس سے معاملات یکسر بدل گئے ہیں اور اگلے دو ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.