2014 میں عمران خان اور راحیل شریف کے درمیان ہونے والی ڈیل ختم ہو گئی

2014 میں عمران خان اور راحیل شریف کے درمیان ہونے والی ڈیل ختم ہو گئی
سینئر صحافی سلیم صافی نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اصل ڈیل عمران خان اور اس ملک کے مقتدر حلقوں کے درمیان ہوئی تھی جو پچھلے کئی سالوں سے روبہ عمل ہے۔

اپنے وی لاگ میں انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی پریس کانفرنس میں سب پر واضح کر دیا تھا کہ کسی کیساتھ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی۔ میڈیا میں اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہ کیا جائے۔ ان کا حکم سر آنکھوں پر ہم اس کی بات نہیں کرتے لیکن اصل ڈیل کی تو بنیادیں تو 2011ء میں آصف زرداری کے دور حکومت میں رکھی گئی تھیں۔

سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اس کو باقاعدہ ڈیل کی شکل اس وقت ملی جب نواز شریف نے پرویز مشرف کیخلاف مقدمہ چلایا۔ اس کے بعد دھرنوں سے پہلے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں مقتدر حلقوں نے عمران خان سے ڈیل کی جس میں طاہر القادری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسی ڈیل کے تحت دھرنے ہوئے، لاک ڈائون ہوا۔ بہت سارے لوگوں کو دوسری پارٹیوں سے توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا۔ میاں نواز شریف کو حکومت سے نکال کر انھیں جیل میں ڈالا گیا۔ زرداری صاحب اور باقی قیادت جیل میں گئی۔



ان کا کہنا تھا کہ اسی ڈیل کے تحت عدالتوں کو مینج کیا گیا۔ ثاقب نثار جیسے لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ اسی کے تحت میڈیا کو استعمال کرکے عمران خان کو بطور ایک ہیرو بنا کے پیش کیا گیا۔

اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اس سارے عرصے میں اسی ڈیل کا سہارا لے کر مختلف ریاستی اداروں کو اپنے لئے ڈھال بنائے رکھا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس ڈیل کے نتیجے میں ہر طرح کی ڈھیل مل جانے کے باوجود وہ معیشت، خارجہ پالیسی سمیت کسی اور میدان میں پاکستان کو آگے لے کر جا سکے۔ معیشت کا انہوں نے ستیاناس کر دیا جبکہ خارجہ محاذ پر انہوں نے جس افراط وتفریط کا مظاہرہ کیا اس نے پاکستان کو کہیں کا نہیں چھوڑا، نہ اسے چین کا ساتھی رہنے دیا نہ امریکا کا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان شاید ایسے واحد حکمران ہیں جو زرداری اور نواز شریف کے مقابلے میں بہت بری طرح ریاستی اداروں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ 100 زرداری یا نواز شریف مل کر پاکستان کے ریاستی اداروں کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو تن تنہا عمران خان نے پہنچا دیا۔ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ جو ڈیل جنرل راحیل شریف کے دور میں کی گئی تھی وہ اب اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔