معاشی میدان میں عورت کا کردار: پیداوار اور سائنس کے میدانوں میں خواتین کے کردار کا ایک مختصر جائزہ

معاشی میدان میں عورت کا کردار: پیداوار اور سائنس کے میدانوں میں خواتین کے کردار کا ایک مختصر جائزہ
ترقی پذیر مسلم ممالک کے مسائل میں سے ایک مسئلہ خواتین کو پس ماندہ رکھنا بھی ہے۔ بہت سے نام نہاد دانشور خواتین کو معاشی و سماجی سرگرمیوں سے دور رکھنے اور ان کو ناقص العقل قرار دے کر گھروں میں محدود کرنے کے لئے یہ خود ساختہ دلیل لاتے ہیں کہ خواتین، عقلی اور جسمانی طاقت میں مردوں سے کم تر ہیں۔

اس مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خواتین کس طرح معاشی و سماجی سرگرمیوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اور یہ کہ خواتین کو عقلی و جسمانی طور پر کم تر و کمزور قرار دینے والے دراصل سماج کی ترقی کے مخالف ہیں۔

پروڈکشن، انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا ایسا عمل ہے، جس میں مختلف مادی اور غیر مادی عوامل کے مرکب کے ذریعے کسی چیز کو تیار کر کے اس کو استعمال میں لانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ غیرمادی عوامل سے مراد یہ ہے کہ مثلاً کسی پیداورای عمل کو کیسے انجام دیا جائے، یا اس کی منصوبہ سازی کیسے کی جائے۔

ان سب مراحل کو پروڈکشن یا پیداواری عمل کہا جاتا ہے۔ اور پیداواری عمل کے تمام مراحل میں شریک فرد محنت کش کہلاتا ہے – چاہے مرد ہو یا عورت۔

Production is a process of combining various material inputs and immaterial inputs (plans, know-how) in order to make something for consumption (output).

جیسے چاول/گندم/مکئی/کپاس وغیرھم کی فصلوں کی بیجائی، کٹائی، صفائی اور استعمال میں لانے کے تمام مراحل پروڈکشن یا پیداواری عمل کہلائیں گے۔
اسی طرح انڈسٹریل یعنی صنعتی چیزیں ہیں۔ جیسے سیمنٹ کو تیار کرنے کے لئے خام مال (Raw matterial) فراہم کرنا۔ پھر مشینوں کے ذریعہ اس خام مال کو اس قابل بنانا کہ وہ سیمنٹ بن کر بلڈنگ کے لئے استعمال کے قابل ہو سکے۔ یہ سب مراحل پروڈکشن کے مراحل ہیں۔

اسی طرح دوسری صنعتیں ہیں، جیسے سٹیل کی صنعت، موبائل اور کمپیوٹر کی صنعت۔

یہ یاد رہے کہ اس بحث میں صنف سے مراد انسانی نوع کے نر اور مادہ یعنی مذکر اور مونث ہیں لیکن صرف مذکر اور مونث کی تعبیر سے بچے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

دراصل صنف کی بات کرتے ہوئے بلوغت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پس صنفِ مرد سے مراد بالغ مرد ہیں۔ اسی طرح صنفِ زن سے مراد بالغ خواتین ہیں۔

اب دو مختلف صنفیں ہونے کی بنا پر ان میں بعض حوالوں سے اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ جیسے عام طور پر مردوں اور خواتین کے مزاج میں فرق ہوتا ہے۔ کہ خواتین نرم مزاج اور مرد اگریسیو یا سخت مزاج سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ فرق بھی 100 فیصد نہیں ہوتا۔ کئی خواتین جارحانہ مزاج کی حامل بھی ہو سکتی ہیں اور مرد نرم مزاج کے مالک۔

اسی طرح بعض فطری صلاحیتوں میں بھی اختلاف موجود ہے۔

جیسے خواتین ماں بن سکتی ہیں۔ مرد ماں نہیں بن سکتا (اگرچہ جینٹنک انجیئنرنگ کی آمد کے بعد یہ امتیاز اب کسی ایک صنف سے مخصوص نہیں رہا۔ کیونکہ ڈی این اے کے ذریعے بچوں کی پیدائش پہ کام ہو رہا ہے۔ جس کے بعد مرد بھی ماں بن سکے گا۔ لیکن یہ خیال ابھی تک عملی نہیں ہو سکا کہ اس میں کئی رکاوٹیں ہیں)

اسی طرح عام طور پر جسمانی طاقت کے کام مرد سے مخصوص سمجھے جاتے ہیں لیکن اس وقت جسمانی طاقت کے کاموں میں بھی خواتین شریک ہو رہی ہیں۔ جیسے باکسنگ، ریسلنگ، فٹ بال، ہاکی جیسے کھیلوں میں عورتیں حصہ لے رہی ہیں۔ اور مزید جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے مردوں سے زیادہ جسمانی طاقت کی حامل خواتین کی تشکیل ممکن ہے۔

بہرحال بطور انسان مرد ہو یا عورت وہ ہر کام سیکھ سکتے ہیں۔

پس بطور صنف اگرچہ کچھ فرق موجود ہیں۔ لیکن انسانی علم کی ترقی سے ان کو کم کرنا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ صنف زن کا پروڈکشن میں کیا حصہ ہے۔ ہم پروڈکشن کی وضاحت اوپر کر چکے ہیں۔ اس کی روشنی میں مثلاً چاول کی فصل کی ایک مثال لیجئے: چاول لگانے، کاٹنے، صفائی کرنے کے مختلف مراحل ہیں۔ ہمارے جیسے پسماندہ ملک میں جہاں مشینی کام ابھی کم ہیں، چاول کی فصل کے تمام مراحل میں عورت شرکت کرتی ہے۔ بلکہ بعض مراحل میں تو عورت کی شرکت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ چاول کی پنیری لگانے میں مرد سے زیادہ تعداد میں پانی اور کیڑے مکوڑوں سے بھرے ہوئے کھیت میں کام کر رہی ہوتی ہے۔

کپاس کی فصل کا یہی عالم ہے۔ پھٹی چننے کے مرحلے پر خواتین اور بچوں سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔

یہاں ایک اور مثال دینا چاہوں گا: فٹ بال ایک انٹرنیشنل گیم ہے اور فٹ بال بنانا ایک بہت بڑی منافع بخش انڈسٹری ہے۔ پاکستان کا شہر سیالکوٹ اس حوالے سے مشہور ہے۔ اس شعبے میں مرد بہت کم ہیں۔ اس میں خواتین اور بچوں سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے ہاتھ نرم ہوتے ہیں تو فٹ بال کی سلائی کے مرحلے میں زیادہ کارآمد ہوتے ہیں۔

لہٰذا ہرپیداواری عمل میں جسمانی طاقت ہی کارآمد نہیں ہوتی۔ بلکہ کئی مقامات پر پیداوار کے لئے نرمی و لطافت بھی ضروری ہے اور تسخیرطبعیت میں پیداواری عمل بھی شامل ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ دیکھیے جس میں یہ بتایا گیا کہ کچھ عرصہ پہلے تک دنیا بھر میں استعمال ہونے والا فٹ بال پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں تیار ہوتا تھا۔ لیکن اس میں بچوں اورخواتین سے جبری مشقت لیے جانے کی وجہ سے اب یہ بہت کم ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود ورلڈ کپ کے لئے فٹ بال کی تیاری میں خواتین شریک رہیں۔

پی ٹی وی کی ایک ویڈیو رپورٹ کا لنک بھی دیکھیے جس میں خواتین کو فٹ بال کے شعبے میں کام کرتے دکھایا گیا ہے۔

ایک اور ویڈیو کا لنک جس میں خواتین کو فٹ بال کی تیاری کے تمام مراحل میں کام کرتے آپ دیکھ سکتے ہیں۔

میں یہاں موضوع سے مناسبت کی وجہ سے چائلڈ لیبر اور بچوں سے جبری مشقت لیے جانے کا بھی حوالہ دینا چاہتا ہوں (میں چائلڈ لیبر کے سخت خلاف ہوں لیکن یہ صرف اس مغالطے کو دور کرنے کے لئے ہے جس کے مطابق صرف طاقت ہی تسخیر فطرت میں غالب کردار ادا کرتی ہے)۔

بچوں کے نرم ونازک ہونے میں کسی کو شبہ نہیں۔ بچے تو پھول ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہی بچے پروڈکشن میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اور بسا اوقات جن بچوں کے سرپرست فوت یا معذور ہو جاتے ہیں، وہ اپنے پورے خاندان کا سہارا بن جاتے ہیں۔ اسی سہارا بننے کا نام ہی تو قوّامیت ہے۔ تو اب قوامیت مردوں پر منحصر نہیں رہی۔ بچے اور عورتیں بھی قوّامیت میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس لئے کہ اب جسمانی طاقت پروڈکشن کا واحد ذریعہ نہیں رہا۔ نہ ہی تسخیر فطرت مردانہ طاقت کی مرہون منت ہے۔

اس دور میں تو بچے بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ حالانکہ اخلاقی لحاظ سے یہ غلط ہے۔ اور اس کے خلاف سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں لیکن یہاں بات کرنے کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ تسخیرِ فطرت کا مرحلہ ہو یا پروڈکشن کا، نازک سمجھے جانے والے بچے اور خواتین بھی اس میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

اس کا کچھ احوال نوائے وقت کی اس رپورٹ میں پڑھیے۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ بچے جبری مشقت کر کے پروڈکشن کے عمل میں شریک بنائے جا رہے ہیں۔

اسی طرح دوسری انڈسٹریز میں بھی خواتین کام کر رہی ہیں اور پروڈکشن میں بھی اپنا فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ اور یہ مشاہدے کی بات بھی ہے کہ بسا اوقات خواتین کو مردوں سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر دیہاتی سماج میں۔

ہم نے عام دیکھا ہے کہ خواتین فصلیں کاٹتی ہیں۔ جانوروں کو سنبھالتی ان کو چارہ ڈالتی ہیں۔ جنگلوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی ہیں۔ ان بھاری اور طاقت‌ فرسا کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کے سارے کام بھی خواتین ہی کرتی ہیں۔ یہ صرف میرے مشاہدے کی بات نہیں۔ نیشنل جیوگرافک کے اس مضمون میں UN کے حوالےسے ذکر ہے کہ ایگریکلچر فارمنگ میں inequality کے باوجود خواتین مردوں کی طرح بہتر کام کر سکتی ہیں۔

اس مضمون میں لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے مختلف خطوں میں خواتین کی ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں شرح بھی بتائی گئی ہے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمام تر محنت کے باوجود خواتین کی ضروری وسائل تک رسائی کم ہے۔ اور زمین کی ملکیت ابھی تک زیادہ تر مردوں کے پاس ہے (اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسائل کی اصل جڑ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت ہے)۔

سائنس کی دنیا میں بھی چاہے وہ قدیم دور کی ہائی پیشیا ہو یا جدید دور کی مادام کیوری اور فلورنس سابین، خواتین سائنس میں بھی فعال رہی ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے اس مضمون میں آپ خواتین سائنسدانوں کے بارے میں پڑھ سکتے ہیں۔

روس کی خلاباز خاتون سائنسدان ویلنٹینا تریشکووا پہلی خاتون ہیں جس نے 1963 میں خلا میں سفر کر کے اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح روس کی سائنسدان سویٹلانا ساویٹسکایا Svetlana Savitskaya وہ پہلی خاتون خلاباز ہے جس نے 1984 میں خلا میں چہل قدمی کر کے نسائی قوت کا مظاہرہ کیا۔

ایرانی خاتون انوشہ انصاری وہ پہلی خاتون ہیں جس نے ایک ٹورسٹ کی حیثیت سے خلا کا سفر کر کے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ 29 مارچ 2019 کو ناسا نے ایک خلائی مشن روانہ کیا جس میں صرف خواتین شامل ہیں۔ دو خواتین اینی مکلین اور کرسٹینا کوچ خلا میں چہل قدمی کریں گی۔ اور اس مشن میں مدد کرنے والا زمینی عملہ بھی صرف خواتین پر مشتمل ہے۔

یہ خواتین کی مہارتوں کے اظہار کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مارچ 2019 میں ناسا نے اعلان کیا تھا کہ چاند اور مریخ پر جانے والے اگلے مشنز کا مرکزی کردار خواتین ہوں گی۔

خلائی سائنس میں خواتین کے کردار کے بارے میں اس مضمون کو غور سے پڑھیے۔

آخری بات، گھر کے کاموں کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ خواتین کا بہت سا وقت لے جاتے ہیں۔ اب اگر مردوں کی اکثریت سماجی اور معاشی کاموں میں کامیاب ہے تو اس کے پیچھے یہ فیکٹر بھی شامل ہے کیونکہ خواتین گھر کے کام کر کے مردوں کو فراغت فراہم کرتی ہیں۔ اگر مردوں کو گھر میں کھانا پینا اور گھریلو سکون نہ ملے تو شاید وہ اس طرح پرفارم نہ کر سکیں۔ لہٰذا اس فیکٹر کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔ کیونکہ فراغت اور سکون انسان کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اور اگر یہی سکون و فراغت خواتین کو مل جائے – جو ابھی تک پوری طرح خواتین کو نہیں مل سکا، کیونکہ دنیا میں ہر جگہ گھر کے کام عورت کی ہی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے – تو عورت پہلے سے بھی بہتر پرفارم کر سکتی ہے۔

خواتین انسان ہونے کی حیثیت سے ہر کام انجام دے سکتی ہیں۔ اور وہ سخت ترین کام (جو اس سے پہلے مردانہ سمجھے جاتے تھے) بھی انجام دے سکتی ہیں۔ مینجمنٹ تو اب عورت کے لئے بہت ہی معمولی کام ہے۔ وہ تو اب خلا کو تسخیر کرنے کے میدان میں مردوں سے بھی آگے میں بڑھنے کی کوشش میں ہے۔

مصنف دینی تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل ہیں۔ اعجاز نقوی فلسفہ، سائنس اور سماجیات سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک مدرسے میں بطور وائس پرنسپل خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔