• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
منگل, فروری 7, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

ہندوستان کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ مہاتما کا مرنا ضروری تھا

عظیم بٹ by عظیم بٹ
جنوری 19, 2022
in تجزیہ
44 0
0
ہندوستان کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ مہاتما کا مرنا ضروری تھا
51
SHARES
245
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

گاندھی اپنی موت سے 6 ماہ قبل ہی اپنے مرنے کی نوید سنا چکے تھے۔ “میں اس وقت کے دیکھنے کے لئے زندہ رہنا نہیں چاہتا جب ہندوستان کی انسانیت وحشت میں بدل جائے۔”

30 جنوری 1948 وہ دن تھا جب انسانیت کا علمبردار موہن داس گاندھی اپنے اس ملک میں جس کو اس نے بدن پر دو سفید چادریں اوڑھے انگریزوں سے آزاد کروایا تھا قتل کر دیا گیا۔ ہم ہندوستان اور پاکستان میں آج بھی نئی نسل کو یہ پڑھاتے ہیں کہ ہندو اور مسلم فسادات کی بنا پر تقسیم کا عمل ہوا مگر ہم یہ نہیں بتاتے کہ آزادی کے بعد بھی ہندو خود ہندوئوں اور مسلمان خود مسلمان کو مارنے پر کیوں تلے رہے۔ مہاتما گاندھی کو مارنے والا کوئی مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مارنے والا کوئی ہندو تھا۔

RelatedPosts

پاکستان کی درخواست پر سندھ طاس معاہدے پر ثالثی کا آغاز

کشمیر کی آزادی پاکستان کی سیاسی اور معاشی طاقت سے ممکن ہے

Load More

گاندھی کے نظریات نے گاندھی کو مروا دیا

موہن داس گاندھی یوں تو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کی تعلیم قریبا ہر بڑے مذہب پر تھی۔ گاندھی نے اپنی کئی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ قران مجید کو ایک سے زائد مرتبہ پڑھ چکے ہیں اور وہ اس کو الہامی کتاب سمجھتے ہیں۔ گاندھی مذہی رواداری کا پرچار کرتے تھے اور آخری دم تک کرتے رہے۔

مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد اور مذہبی ہم آہنگی کو کس نظریے سے دیکھتے تھے اس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب “مذہب اور دھرم” میں بہت کھل کر کیا ہے۔ گاندھی نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین ہونے والی لڑائی میں عالمی طاقتوں کو منصف رکھنے پر بھی کھل کر بات کی ہے۔ حقیقت یہ کہ ہم غلام ہو گئے ہیں اس لئے آپس (ہندو،مسلم) میں لڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی تیسرا فریق (امریکہ،برطانیہ،اقوام متحدہ) ہمارے جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرے۔

مہاتما گاندھی (ہند سواراج صفحہ 62) 22 نومبر 1908

اس وقت بھارت میں برسر اقتدار مذہبی جنونیت والی سرکار کے نظریات کو آج سے 75 سال قبل گاندھی نے بھانپتے ہوئے اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ “اگر ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہیں، تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ تمام ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی جنہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا ہے آپس میں ہم وطن ہیں انہیں متحد ہو کر رہنا پڑے گا۔ خواہ اپنے مفادات ہی کے لئے ایسا کرنا پڑے۔ دنیا کے کسی حصے میں ایک قومیت اور مذہب کی یکسانیت لازم و ملزوم چیز نہیں ہے اور نا ہی ہندوستان میں کبھی ایسا ہو گا۔”

یہاں تک کہ گاندھی نے بعد از تقسیم بھی مذہبی جنونی ہندوئوں کو آڑے ہاتھ لیا اور کھل کر ان کی اس بات پر ہرزہ سرائی کی جنہوں نے سینکڑوں مساجد کو شہید کیا تھا۔ گاندھی نے 30 نومبر 1947 کو کہا کہ “میں اس واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فساد کے دوران جہاں تک مجھے علم ہے تقریباً 137 مساجد توڑی گئی ہیں، ان میں سے بعض کو مندر بنا لیا گیا ہے۔ ایک ایسی مسجد کنلٹ پیلس کے پاس ہے جو کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ اس پر ایک جھنڈا اڑ رہا ہے اور اندر ایک بت رکھ کر مندر بنایا گیا ہے۔ “میں مساجد کی ایسی تمام بے حرمتی کو ہندو دھرم اور سکھوں کے مذہب پر دھبہ سمجھتا ہوں، میری رائے میں یہ عمل بالکل ناخدا ترسی کا ایک عمل ہے”۔

گاندھی چونکہ خود اس بات کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ وہ قرآن کو کئی بار پڑھ چکے ہیں اس لئے انہوں نے قرآن اور اسلام پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا مجھے اسلام میں مجموعی طور پر کہیں بھی فساد اور لڑائی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ میں نے اسلام کو اتنا ہی سمجھا ہے کہ وہ امن کا مذہب ہے۔ البتہ گاندھی نے قرآن کی ان آیات کا ذکر بھی کیا ہے جہاں پر کفار کو قتل کرنے کا تذکرہ ہے۔ گاندھی ان آیات کے بارے میں ہندوئوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ “جو لوگ قرآن کی چند آیات کو ہمارے خلاف پیش کرتے ہیں، ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا اس قسم کے حوالے ویدوں سے بھی نہیں دئیے جا سکتے؟”

“دیگچی کو یہ حق نہیں کہ کیتلی کو کالا کہے”

گاندھی انگریز کے تسلط کی بجائے ہند مسلم بھائی چارے پر زور دیتے تھے۔ موہن داس گاندھی یوں تو قبل از تقسیم اس بات پر زور دیتے رہے کہ تقسیم مت ہو اور ہندو مسلمان مل کر بھارت میں رہیں اور اتحاد سے دنیا اور خصوصاً برٹش راج کو شکست دیں۔ گاندھی نے زیاہ تر بھائی چارے کا سبق ہندوئوں کو دیا کہ وہ مسلمانوں سے بہتر رویہ رکھنے میں پہل کریں۔ اس حوالے سے گاندھی نے بار بار بھائی چارے پر زور دیا۔ 1908 میں گاندھی نے ایک جگہ کہا کہ “اگر دو بھائی صلح کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کیا تیسرے فریق کے لئے ممکن ہے کہ وہ ان کو جدا کر سکے؟ لیکن اگر وہ فساد کے مشوروں پر کان دھریں گے تو میں ان کو بیوقوف کہوں گا۔ اگر انگریز ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر سکے تو ہمیں انگریز کو الزام دینے کی بجائے اپنی حماقت کو الزام دینا چاہیے۔ مضبوط تعلقات قائم کرنے کا کام ہندوئوں کے لئے زیادہ آسان ہے کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ ہیں اور زیادہ پڑھا لکھا ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ لہذا وہ مسلمانوں سے اپنے خوشگوار تعلقات کو ان حملوں سے بچانے کے لئے بہتر انتظام کریں”۔

گاندھی کو قتل کرنے والا ناتھو رام گوڈسے کا تعلق کس جماعت سے تھا؟

تیس جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قتل کے خلاف ردعمل نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو یکم فروری کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ ان کا قاتل ناتھورام گوڈسے اس تنظیم سے “کبھی بھی کسی طرح سے جڑا” نہیں تھا۔ گاندھی کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران، گوڈسے نے عدالت کو بتایا کہ اس نے آر ایس ایس کو چھوڑ کر ہندو مہاسبھا میں شمولیت اختیار کی کیونکہ وہ ہندوؤں کے “منصفانہ حقوق” کے لیے لڑنا چاہتے تھے۔ اس طرح ایک خرافات نے جنم لیا۔

اس افسانے کو امریکی محقق جے اے کرن جونیئر نے تقویت بخشی، جس نے 1951 میں دعویٰ کیا کہ گوڈسے نے 1930 میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اور 1934 میں ہندو مہاسبھا کا رکن بننے کے لیے اسے چھوڑ دیا تھا۔ کرن نے موقف اختیار کیا کہ وجہ یہ تھی کہ آر ایس ایس کے بانی کے بی ہیڈگیوار نے اپنی اس وقت کی نئی تنظیم کو سیاسی تنظیم میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بات کا انہوں نے کوئی حوالہ پیش نہ کیا۔

اس تمام افسانے کا ڈراپ سین بھارتی صحافی دھریندر کے جھا نے اپنی کتاب “گاندھی کا قاتل” میں بہت خوبصورتی سے کیا اور بتایا کہ گوڈسے ہمیشہ سے آر ایس ایس کا رکن تھا اور آخری دم تک رہا۔ یہ سارا کھیل آر ایس ایس نے اپنی ساکھ بچانے کے لئے رچایا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی بی جے پی ہو یا آر ایس ایس وہ ناتھو رام گوڈسے کی موت کا دن احترم سے مناتے ہیں۔

Tags: BJPIndiaMahatma Gandhinathuram godseRSSآر ایس ایسانڈیابرٹش راجبی جے پیپاکستانمہاتما گاندھینتھو رام گوڈسے
Previous Post

معاشی میدان میں عورت کا کردار: پیداوار اور سائنس کے میدانوں میں خواتین کے کردار کا ایک مختصر جائزہ

Next Post

عجیب بیماری: 15 سالہ بچی ‘بوڑھی’ ہوکر دنیا سے رخصت

عظیم بٹ

عظیم بٹ

عظیم بٹ گزشتہ 6 برس سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ بطور پاکستانی ایکٹویسٹ ملکی و غیر ملکی چینلز پر پاکستان کا موقف رکھتے ہیں۔مصنف سیون نیوز سے اسائنمنٹ ایڈیٹر اور عدالتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر [email protected]

Related Posts

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

by حسنین جمیل
فروری 7, 2023
0

سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک طبقہ دشت گردوں کا حمایتی ثابت کرنے کے لئے کمربستہ ہے۔ یہ خود ساختہ لبرل...

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

by بایزید خان خروٹی
فروری 7, 2023
0

کرکٹ کے ایک آزمائشی میچ کے لئے 11 کروڑ روپے دینے والا بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں 3 لاکھ ملازمین موجود...

Load More
Next Post
عجیب بیماری: 15 سالہ بچی ‘بوڑھی’ ہوکر دنیا سے رخصت

عجیب بیماری: 15 سالہ بچی ‘بوڑھی’ ہوکر دنیا سے رخصت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
1

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In