ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر کا نقصان

ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان کو سالانہ 3.8 ارب ڈالر کا نقصان
اگلی دو دہائیوں میں درجہ حرارت دو اعشاریہ پانچ تک بڑھنے کی تنبیہ کرتے ہوئے، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان کو ماحوالیاتی تبدیلی کی بنا پر سالانہ 3.8 ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے۔

قرض دینے والے دونوں بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک مشترکہ تحقیق، بعنوان 'کلائیمٹ رسک کنٹری پروفائل'، کے مطابق پاکستان اوسط درجۂ حرارت اور اس کے نتیجے میں معاشی اور سماجی نقصانات کے حوالے سے صف اول کے ممالک میں سے ہے۔

"پاکستان کوعالمی اوسط سے کہیں زیادہ اضافے کا سامنا ہے اور 2090 تک اس میں 1986 سے 2005 کے درجۂ حرارت کو معیار رکھتے ہوئے 1.3 سے 4.9 درجۂ حرارت تک اضافے کا امکان ہے۔"

اس صورتحال میں پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جنہیں ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے، اور 2020 کے 'انفارم رسک انڈیکس' کے مطابق اس کا نمبر 191 ممالک میں 18ویں نمبر پر ہے۔ بلند ترین اندازوں کے مطابق 2080 سے 2099 کے دوران اخراج کی عالمی اوسط تقریباً 3.7 درجۂ حرارت پر رہے گی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2040 اور 2059 کے درمیان یومیہ درجہ حرارت میں 1.4 سے 2.6 کے اوسط اضافے کی پیشگوئی کی گئی ہے، اور متفرق حالات میں 2080 سے 2099 کے دوران یہ اضافہ 5.3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی جا سکتا ہے۔

رپورٹ میں مزید اس خیال کا اظہار بھی کیا گیا کہ اوسط درجہ حرارت کے مقابلے میں سالانہ کم از کم اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں شدت تقویت حاصل کرے گی، جس سے ممکنہ طور پر انسانی صحت، رہن سہن اور قدرتی ماحول خطرے سے دوچار ہوں گے۔

مزید یہ کہ پاکستان میں برسات اور بہائو کے نظام، اور نتیجتاً آبی ذرائع میں تبدیلی نہایت غیر یقینی رہے گی، لیکن خشک سالی کے واقعات میں اضافہ ضرور متوقع ہوگا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اکثر اور شدت کے ساتھ رونما ہونے کی بھی پیشگوئی کی گئی ہے، جس میں کمزور اور اقلیت میں موجود طبقات کو زیادہ متاثر کرنے والا 'ڈیزاسٹر رسک' شامل ہے۔

رپورٹ میں سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے، جس کے مطابق 2030 سے 2044 کے دوران انتہائی سیلابی صورتحال سے لگ بھگ 50 لاکھ مزید لوگوں کا متاثر ہونا ممکن ہے، جب کہ 2070 سے 2100 کے درمیان سالانہ تقریباً 10 لاکھ مزید افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔

پیشگوئی میں کئی بنیادی اہمیت کی حامل اور 'منافع بخش فصلوں' کی پیداوار میں تنزلی بتائی گئی ہے، جن میں کپاس، گندم، گنا، دالیں اور چاول شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ شہری علاقوں میں رہنے والوں اور کھلے آسمان تلے رہنے والے مزدوروں کو متاثر کر سکتا ہے، خاص کر 'امیشن پاتھ ویز' میں گرمی سے تعلق رکھنے والے امراض اور اموات میں اضافہ۔

اس صورتحال سے غذائی قلت اور محرومی میں مستقل اور انتہائی اضافہ ہو سکتا ہے، جو کہ فوری طور پر مزید تحقیق، مواقف اقدامات اور 'ڈیزاسٹر رسک' میں کمی کی طرف سوچنے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔

رپورٹ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے جنوبی علاقوں میں واقع شہر خاصے متاثر ہوں گے۔ 'Higher Omission Pathways' کے تحت ایک سال میں 35 ڈگری سینٹی گریڈ رکھنے والے دنوں کی تعداد اکیسویں صدی کے وسط تک 120 سے بڑھ کر 150 تک ہو سکتی ہے۔ ان تبدیلیوں سے شہری ماحولیات اور ان کو سہارا دینے والے توانائی کے نظام پر شدید دبائو مرتب ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق ان تبدیلیوں کو بڑھتے ہوئے 'Urban Heat and Land Effect' کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، جس کا بنیادی سبب لوگوں کی شہروں کی جانب منتقلی ہے اور جو لاہور اور پشاور میں پہلے سے ظاہر ہے، کہ جہاں گرمی میں کمی کی ضرورت کا احساس اور ملک کے توانائی کے نظام پردبائو بڑھ چکا ہے۔

جوہری پلانٹس کی 'کولنگ'

رپورٹ میں جوہری اور تھرمل پاور پلانٹس کی کولنگ سے متعلق چیلنجز کا تذکرہ کیا گیا، جس سے ان کی کارکردگی میں کمی بھی ہوگی۔ توانائی کا نظام 'ایکسٹریم کلائمیٹ' کے اثرات سے بھی متاثر ہو سکتا ہے، اور 'کلائمیٹ چینج' کے دوران یہ مسئلہ شدید بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان 'رسک انڈیکس' میں 191 میں سے 18ویں نمبر پر ہے، اور اس 'رسک رینکنگ' کا بنیادی سبب لوگوں کا زلزلوں اور اندرونی خلفشار کی زد میں آنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان واضح طور پر سیلاب کی بھی زد میں ہے، اور اس سبب رینکنگ میں مجموعی طور ہر 8ویں نمبر پر ہے۔ سیلابی صورتحال میں دریائی، 'فلیش فلڈز'، ساحلی، اور ٹراپکل سائیکلون اور ان سے متعلقہ خطرات (رینکنگ میں مجموعی طور پر 40) اور خشک سالی (43) شامل ہیں۔ پاکستان میں 'ڈیزاسٹر رسک' کا سبب سماجی کمزوریاں بھی ہے، یعنی کئی جہت رکھنے والی وہ غربت جس کی وجہ سے ملک رینکنگ میں 37ویں نمبر پر موجود ہے۔ البتہ حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں پاکستان کچھ بہتر، یعنی 59ویں رینکنگ رکھتا ہے۔

پاکستان نے مستقل بنیادوں پر دنیا کےکچھ بلند ترین درجہ حرارت کا سامنا کیا ہے، جس میں ہر ماہ زیادہ سے زیادہ اوسطاً 27 ڈگری سینٹی گریڈ اور جون کے دوران 36 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی مقام پر 'ہیٹ ویو' کے رونما ہونے کے امکانات تین فیصد کے قریب ہیں۔ اس صورتحال کا سامنا آبادی کی ایک بڑی تعداد کو ہے، اور ایسا اس بات سے عیاں ہے کہ 2015 میں اندازاً 65 ہزار سے زائد لوگ اسپتالوں میں داخل کیے گئے۔

تقریباً ہر سال پاکستان کے کئے علاقے 38 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب موسمی اثرات یکجا ہو کر طوالت والی 'ہیٹ ویو' پیدا کرتے ہیں، جس سے صحت پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے 1997 سے 2015 کے دوران 126، سالانہ اوسطاً سات، 'ہیٹ ویوز' کا سامنا کیا، وہ بھی اضافے کے رجحان کے ساتھ۔




یہ رپورٹ گذشتہ برس ڈان اخبار میں شائع ہوئی تھی جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔