• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, فروری 9, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

گلزار احمد بطور چیف جسٹس، وقار سیٹھ کی موت، اور راشد منہاس روڈ کا سنیما ہال

وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایئرپورٹ سے گھر کے راستے میں انہیں راشد منہاس روڈ پر وہ سنیما ہال وہیں کا وہیں کھڑا نظر آئے گا اور اس پر لگا بل بورڈ بھی۔

عبدالمعز جعفری by عبدالمعز جعفری
جنوری 29, 2022
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
117 1
0
Abdul Moiz Jaferii
138
SHARES
658
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

جب جسٹس گلزار احمد پاکستان کے چیف جسٹس بنے تو کچھ لوگ پریشان تھے۔ انہوں نے اس غیر قانونی طریقہ کار کا نوٹس لینا شروع کر دیا تھا جس کے ذریعے کنٹونمنٹ کی ایسی زمین جو فوج کے استعمال میں لانے کی گنجائش یا ضرورت نہیں تھی، وہ حکومت کو واپس کرنے کی بجائے اس کے پلاٹ بنا کر شہریوں کو بیچے جا رہے تھے۔ انہوں نے کراچی کی راشد منہاس روڈ پر فوجی زمین کے اوپر ایک سنیما ہال کا بھی نوٹس لیا۔ انہوں نے ایسی غیر قانونی تعمیرات پر ایک مفصل رپورٹ طلب کی۔

29 نومبر 2019 کو، چیف جسٹس کا حلف اٹھانے سے کچھ ہی دیر پہلے، جسٹس گلزار نے جسٹس عائشہ ملک کی دعوت پر تیسری خواتین ججز کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ خواتین ججز کا جنس پر ایک نظریہ بنانے کے حوالے سے ہوئی اس کانفرنس کا دعوت نامہ ملنے پر وہ بہت کنفیوز ہو گئے تھے۔ ناظرین کے ساتھ مل کر ہنسنے کے بعد انہوں نے کہا، “میں بہت متجسس تھا۔ Alice in the Wonderland کی طرح متجسس”۔

RelatedPosts

نظریۂ ضرورت کی موت: وہ پانچ دن جنہوں نے قوم کو جکڑے رکھا

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، اور سیاست کے سرکس کا رنگ ماسٹر

Load More

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بڑی محنت سے ایک تقریر لکھی اور فیصلہ کیا کہ وہ اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ “یہ خواتین کچھ سے بڑھ کر کچھ ہیں۔ اور یہ مجھ آدمی سے کچھ کروانا چاہتی ہیں”۔ وکلا جو یہ منظر دیکھ رہے تھے، ان میں سے شاید ہی کوئی ہو جو اس وقت سمجھا ہو کہ wonderland کے اس دورے پر وہ کہاں لے جائے جا رہے ہیں، اور قانون کے حوالے سے وہ تمام خطرات جو چیف جسٹس صاحب مول لینے کو تیار تھے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود تسلیم کر رہے تھے کہ وہ کنفیوز تھے۔

سالوں سے نظر انداز چلے آ رہے شہر کراچی کا ایک بیٹا اب چیف جسٹس تھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 140-A کے تحت دائر مقامی حکومتوں کی بحالی پر خصوصی توجہ دے گی جس کے تحت صوبائی حکومتیں فنانس کمیشن کو مقامی حکومتوں کی سطح پر لے جانے کی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے بجٹ کی ذمہ داری اور اختیارات کو ان تک منتقل کریں گی۔

اس معاملے پر کبھی فیصلہ نہیں ہوا اور بااختیار مقامی حکومتیں اب بھی سندھ میں کہیں نہیں، بشمول کراچی شہر کے۔ ہمارے حالیہ چیف جسٹس صاحبان نے اپنے ادوار من مرضی کے مطابق گزارے ہیں، مثلاً سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو ڈیم انجینیئر اور جیلوں میں کھانے کا ذائقہ چیک کرنے والے ملازم میں تبدیل کر لیا۔ جسٹس گلزار خود کو کراچی میں بلڈنگ کنٹرولر کے طور پر دیکھتے تھے۔

بجائے قومی فنانس ایوارڈز کی طرح صوبائی فنانس ایوارڈز میں دس گنا اضافے کا حکم دینے کے، بجائے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا حکم دینے کے، انہوں نے سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ یہ اختیارات اوپر کی طرف آئیں، اور ان کی ذات میں مرتکز ہو جائیں۔

اگست 2020 میں، جب وہ کراچی میں موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں گرنے والے بل بورڈز پر لیے گئے سو موٹو نوٹس کے ایک کیس میں بنچ کی سربراہی کر رہے تھے، جسٹس گلزار نے پوچھا کہ کیا ایک بہت بڑا بل بورڈ اب بھی راشد منہاس روڈ والے سنیما گھر پر لگا ہوا تھا۔ انہوں نے سب کو یاد دہانی کروائی کہ صرف یہ بل بورڈ نہیں، وہ سنیما گھر بھی غیر قانونی تھا جس پر یہ لگا ہوا تھا۔

کراچی میں، جسٹس گلزار چاہتے تھے کہ ان کے بچپن میں نظر آنے والے بنگلے واپس آ جائیں اور ان کے ایئر پورٹ سے گھر کے رستے میں نظر آنے والے بھدے ٹاور جن میں مڈل کلاس شہری رہتے تھے صفائی دیں کہ یہ یہاں کیوں تھے، بھلے سے شہریوں کے لئے رہنے کی جگہ کی قلت ہو۔ پارکس کے حوالے سے بھی ان کے معیارات بہت بلند تھے اور کراچی کے الہ دین پارک کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کا کمرشل استعمال کیوں کیا جا رہا ہے، حالانکہ لیز کے کاغذات میں اس کی گنجائش تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس کو گرا دیا جائے، اور یہ درخواست ماننے سے انکار کر دیا کہ ان معاملات کو حکومت پر چھوڑا جائے۔ جہاں پہلے بچے پانی کی گھیسیاں لے رہے تھے، اب وہاں نشئی لوہا چوری کر کے اپنی اگلی پڑیا کے پیسے پورے کر رہے ہیں۔

جب نسلہ ٹاور گرانے اور گجر نالے کی اطراف کو انسانوں سے پاک کرنے کا حکم دیا گیا تو راقم نے اپنے قارئین کو فوجی زمین والا وہ پہلا حکم یاد کروایا تھا جس کے بارے میں انہوں نے سوال کیا تھا اور کنٹونمنٹ اور فوجی زمین کے بارے میں رپورٹ طلب کی تھی جو کہیں گم ہو چکی تھی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد، جسٹس گلزار نے فوج کی ملکیت میں تمام زمینوں پر تمام کاروباری سرگرمیاں روکنے کا حکم دیا تھا۔ انہیں بتایا گیا کہ روک دی گئی ہیں۔ نتیجتاً پہلے جو عمارت فالکن مال کہلاتی تھی، جہاں کسی زمانے میں ایک ایئر بیس تھی اور اب استعمال نہیں کی جاتی، وہ ‘ایئر وار کالج انسٹیٹیوٹ’ بن گیا۔ پھر ہماری توجہ دوبارہ نسلہ کو گرانے پر مرکوز ہو گئی۔ اور چیف جسٹس صاحب کا یہ حکم فراموش کر دیا گیا کہ وہ تمام زمین جو اب فوجی استعمال میں نہیں تھی یہ حکومت کو واپس کی جانی تھی۔

مئی 2020 میں انہوں نے سندھ کی کورونا پالیسی کو وفاق کے اوٹ پٹانگ اقدامات کے تابع کیا اور صوبے کو حکم دیا کہ وہ عید سے پہلے شاپنگ مالز کھولنے کے لئے اسلام آباد کی اجازت طلب کرے۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ عدالت میں موجود لوگوں کو چاہے ضرورت نہ ہو لیکن کچھ لوگوں کو عید پر شاپنگ کرنا ہوتی ہے، اور یہ بھی کہا کہ ویک اینڈ پر مالز بند کرنا امتیازی سلوک تھا کیونکہ تمام دن برابر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ کووڈ 19 پاکستان میں ‘غالباً عالمی وبا نہیں تھا’۔

عید کے بعد جب متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ اب کووڈ کو سنجیدگی سے لیا جائے، اور ویک اینڈ پر شاپنگ مالز کھلے رکھنے کا حکم واپس لے لیا اور تاویل یہ کی کہ “اب عید گزر چکی ہے”۔

19 مئی 2020 کو جب سپریم کورٹ میں روزانہ کورونا سے متعلق سو موٹو کیسز کی سماعتیں جاری تھیں، جسٹس گلزار نے ایک ٹی وی چینل کے ٹوئٹر ہینڈل کے مطابق یہ تبصرہ کیا تھا کہ: “میں بہت سی کمپنیوں کا قانونی مشیر رہ چکا ہوں؛ آخر میں تمام غلط پالیسیوں کی وجہ سے بند ہو گئیں”۔ کیا وہ ہمیں کوئی پیغام دینا چاہ رہے تھے؟

سپریم کورٹ بار کونسل کی انتخابی مہم کے دوران ایک تقریر میں سینیئر وکیل حامد خان نے کہا کہ ‘گلزار ڈاکٹرائن’ یہ تھی کہ اگر کوئی کیس اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو گزند پہنچاتا ہو تو اسے سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا جاتا۔ وقار سیٹھ کی سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں تقرری کی درخواست ان کی موت تک سماعت کے لئے مقرر ہی نہیں ہوئی۔ شوکت صدیقی ریٹائر ہو گئے لیکن ان کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ خیبر پختونخوا میں لوگوں کو غیر قانونی طور پر بند رکھنے کے لئے بنائے گئے عقوبت خانے آج بھی قائم ہیں، کیونکہ انہیں بند کرنے کا جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ سپریم کورٹ نے معطل کر دیا تھا۔ خصوصی عدالت کی جانب سے مشرف کو دی گئی سزا کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے اپنے دائرۂ کار سے غیر معمولی طور پر تجاوز کرتے ہوئے معطل کر دیا گیا، اس مضحکہ خیز حکم کے خلاف اپیل تاحال سپریم کورٹ میں توجہ کی منتظر پڑی ہے۔ جس شخص نے یہ آرڈر تحریر فرمایا، اب سپریم کورٹ میں ترقی پا چکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک عدد ‘curative review’ بھی توجہ کا طالب ہے۔

جسٹس گلزار یکم فروری کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اگر وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایئرپورٹ سے گھر کے راستے میں انہیں راشد منہاس روڈ پر وہ سنیما ہال وہیں کا وہیں کھڑا نظر آئے گا اور اس پر لگا بل بورڈ بھی۔ یا پھر وہ اسلام آباد میں اپنے بہت سے پلاٹوں میں سے کسی پر گھر بنا کر وہاں رہنا چاہیں گے جن کی بیلٹنگ کے لئے انہوں نے اپلائی کیا اور قرعہ ان کے نام کا نکل بھی آیا؟ وہ پلاٹ جو کسی ماسٹر پلان کا حصہ نہیں تھے، لیکن انصاف کے نام پر جسٹس گلزار کے نام پر الاٹ ہوں تو سب چلتا ہے؟


عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔

Tags: Abdul Moiz JaferiiJustice Gulzarجسٹس گلزار
Previous Post

سینیٹ میں حکومت کی جیت،اب کسی نے جادو چلایا، تحریک انصاف حکومت میں کرپشن: سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے

Next Post

برطانیہ: عدالت نے وقاص گورایا قتل سازش کیس میں پاکستانی نژاد گوہر خان کو مجرم قرار دیدیا

عبدالمعز جعفری

عبدالمعز جعفری

عبدالمز جعفری پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔

Related Posts

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

by حسنین جمیل
فروری 7, 2023
0

سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک طبقہ دشت گردوں کا حمایتی ثابت کرنے کے لئے کمربستہ ہے۔ یہ خود ساختہ لبرل...

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

بلوچستان میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا طریقہ کار جعل سازی پر مبنی ہے

by بایزید خان خروٹی
فروری 7, 2023
0

کرکٹ کے ایک آزمائشی میچ کے لئے 11 کروڑ روپے دینے والا بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں 3 لاکھ ملازمین موجود...

Load More
Next Post
برطانیہ: عدالت نے وقاص گورایا قتل سازش کیس میں پاکستانی نژاد گوہر خان کو مجرم قرار دیدیا

برطانیہ: عدالت نے وقاص گورایا قتل سازش کیس میں پاکستانی نژاد گوہر خان کو مجرم قرار دیدیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 8, 2023
2

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
1

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In