پاکستان مکمل طور پر معاشی قیدی بن چکا، اسے جیل سے کون اور کیسے نکالے گا؟

پاکستان مکمل طور پر معاشی قیدی بن چکا، اسے جیل سے کون اور کیسے نکالے گا؟
حال ہی میں سینٹ نے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود سٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کر لیا ہے۔ ایوان بالا سے منظور ہونے والے اس بل میں ٹریژری بنچوں کو اپوزیشن کے 42 کے مقابلے میں 43 ارکان کی معمولی برتری حاصل تھی۔ یہ بل وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے پیش کیا تھا۔
اس بل کی منظوری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ملک کو ایک بلین ڈالر کے اجرا کے لئے مقرر کردہ شرائط میں سے ایک ہے۔ اب آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہونا ہے اور اس میں فنڈز کے اجرا کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کی منظوری کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔
اس بل کی منظوری کے بعد سٹیٹ بینک کو اپنے معاشی فیصلے آزادانہ طور پر کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہوگا۔ گویا سٹیٹ بینک خود مکمل طور پر آزاد نہیں لیکن اس کی ڈور اب آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہوگی۔ سٹیٹ بینک اب جو بھی معاشی پالیسیاں بنائے گا، وہ قومی مفاد میں ہوں یہ نہیں، لیکن وہ آئی ایم ایف کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گی۔
جون پرکنز، جو کہ EHM (Economic Hitman) تھے، اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب امریکا جیسے ممالک کسی ملک کو اپنے شکنجے میں پھنسانا چاہتے ہیں تو وہ اس ملک پر قرضوں کی بھرمار کر دیتے ہیں۔ ایسے کاموں کے لئے ان ممالک نے ای ایچ ایم رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
ای ایچ ایم وہ اقتصادی غنڈے ہیں جو کسی بھی حد تک جا کر دوسرے غریب ممالک کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنے وسائل (یعنی تیل اور معدنیات وغیرہ) کو نکلوانے کے لئے ان کے ملک کی کمپنیوں کو ہائیر کریں۔ اس کے لئے یہ ای ایچ ایم ان ممالک کے رہنمائوں کو دولت اور عہدے جیسی چیزوں کی لالچ دیتے ہیں اور اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو وہ ان کو دھمکاتے ہیں۔
یہ ای ایچ ایم اپنے ملک میں بڑی بڑی کمپنوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ بظاہر تو یہ اپنی کمپنی کے لئے ہی کام کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اپنے ملکی مفاد کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے ملک کی حکومت کی جانب سے حتمی آزادی ہوتی ہے۔ اس کے لئے یہ کسی بھی حد تک جا کر اپنے ملکی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ای ایچ ایم ہر دفعہ ان غریب ممالک میں آئیں اور ان کو قائل کریں۔ بعض اوقات کچھ ممالک میں کٹھ پتھلی حکومتیں بھی آ جاتی ہیں جن پر زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جون پرکنز اپنی کتاب میں رضا شاہ کا ذکر کرتے ہیں جو کرمٹ روزویلٹ جونیئر کی وجہ سے ایران پر مسلط کر دیئے گئے تھے۔ کرمٹ روزویلٹ جونیئر امریکن انٹیلی جنس کے ایک افسر تھے۔ روزویلٹ نے موساد کو برطرف کرنے میں زمینی آپریشنل منصوبہ ساز کے طور پر آپریشن ایجیکس(Ajax) میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس نے ایسے نیٹ ورک قائم کئے، جس میں وہاں کے ایسے لیڈرز یا بااثر لوگ شامل ہوئے جو بغاوت کے مختلف پہلوؤں میں حصہ لینے کے لئے تیار تھے۔
جب موساد کی حکومت کا تختہ الٹ گیا تو رضا شاہ کو ایران پر حکمرانی کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ رضا شاہ ایک مکمل طور پر مغربی شخص تھا اور ان کا بہت بڑا حامی تھا۔ ایران کی سرحد سوویت یونین کے ساتھ ہے، اور اسی لئے اس کی لاجسٹک اہمیت تھی۔ اس میں تیل بھی تھا۔ چنانچہ امریکا نے ایران کے شاہ کی حمایت کی جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ کمیونسٹ مخالف تھا۔ اسی طرح پھر ایران کے اندر بھی ایسی پالیسیاں بنیں جو مکمل طور پر امریکی مفاد میں ہوتی تھی۔
یونہی جب ایک کٹھ پتھلی حکومت آتی ہے تو اس ملک پر بھاری قرضے چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور مہنگائی کی شرح بڑھتی رہتی ہے۔ اس ملک کی خود مختاری ختم ہوتی جاتی ہے۔ اس ملک کے اداروں پر اس کی حکومت نہیں بلکہ کوئی اور ہی بلواسطہ قابو رکھتا ہے۔ یوں اس کی پالیسیاں جو بھی بنیں وہ کبھی بھی عوام دوست ںہیں ہوتی۔
پاکستان کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حالیہ چند سالوں میں اس ملک کی جو پالیسیاں بنیں، اس کی تشکیل میں امریکا کا ہاتھ ہے تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے۔
چنانچہ پاکستان کسی اور کے ہاتھوں رسوا ہو رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر ہم پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر نظر ڈالیں جو اس وقت ہمارے ایوانوں میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف جیسے ادارے بنا رہے ہیں۔ یہ وہی تو ادارے ہیں جن پر امریکا بہت زیادہ اثر ورسوخ رکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سٹیٹ بینک اب اپنی معاشی پالیسیاں خود نہیں بنا سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کے لئے کم اور بیرونی طاقتوں کے لئے زیادہ کام کرے گا۔ لحاظہ ایک حد تک پاکستان کی معشیت قید ہو گئی ہے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں جو بل پاس ہوئے اور جو قانون سازی ہوئی ہے، ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عوام کے لئے بنائے گئے ہیں۔ مہنگائی میں جس طرح افسوسناک اضافہ ہوا اور بے روزگاری بڑھی، وہ قابل مذمت اور انتہائی افسوسناک ہے۔ پھر یہ بحث کرنا بہت پیچیدہ ہوگا کہ یہ پالیسیاں کیوں اور کس کے کہنے پر بنائی جا رہی ہیں؟ کیا واقعی اس حکومت پر کوئی ہاتھ ہے جو ان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہے یا ان کے سر پر کوئی ہاتھ نہیں جس کی وجہ سے انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
روپے کی قدر بھی گر گئی ہے اور شدید تنزلی کا شکار ہے۔ ٹیکس آسمان کو چھو رہے ہیں۔ قرضے آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں جو شاید پھر کبھی ادا نہ ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اتنی غریب آبادی والے ملک میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ پاکستان مکمل طور پر معاشی قیدی بن چکا ہے۔ اسے جیل سے کون اور کیسے نکالے گا اس کا پتا لگانا آسان نہیں ہے۔