• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, اگست 17, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کمسن دلہنوں کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک

"ایک بچی اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) نہیں رکھ سکتی، اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کرسکتی، ووٹ نہیں دے سکتی، کسی دوسرے معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتی، تو وہ شادی کے معاہدے میں فریق کیسے بن سکتی ہے؟"

نبیلہ فیروز by نبیلہ فیروز
فروری 28, 2022
in تجزیہ
59 1
0
کمسن دلہنوں کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک
70
SHARES
332
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

شبانہ چودہ سال کی تھی جب اس کی شادی اس کے چوبیس سالہ خالہ زاد سے ہوئی۔ وہ شاہدرہ کے ایک سکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔ شادی کے وقت اس نے اپنی پڑھائی چھوڑی اور اپنے میاں کے گھر سدھاری۔ شبانہ اتنی کمسن تھی کہ شادی شدہ زندگی کے معاملات کو سمجھنا اس کے لئے ناممکن تھا۔ بدقسمتی سے اس کے شوہر نے اسے اکثر مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ گھریلو تشدد کا شکار شبانہ اسی دوران ایک بچی کی ماں بن گئی۔ حمل کے دوران نہ تو اسے کافی خوراک ملی، نہ ہی اچھی دیکھ بھال۔ وہ خودبھی اتنی سمجھدار اور بالغ نہیں تھی کہ اپنا مناسب خیال رکھ سکتی۔ نتیجتاً ماں اور بچی دونوں کی صحت اچھی نہیں تھی۔ کچھ عرصے بعد ہی شبانہ کے شوہر نے اسے طلاق دے دی اور بچی اپنے پاس رکھ لی۔ اب وہ بچی ماں کے بغیر رہ رہی ہے اور شبانہ اپنے والدین کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کی تعلیم ادھوری چھوٹ جانے کی وجہ سے وہ کوئی اچھی نوکری بھی نہیں کر سکتی۔

بچپن کی شادی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پاکستان مسلسل جکڑا ہوا ہے۔ کمسنی کی شادی کا رواج ز یادہ تر کمزور اورپسماندہ طبقات میں ہے۔ مُلک کے طول وعرض میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کمسن لڑکیاں اور لڑکے بیاہے جاتے ہیں مگر بچیاں اس ظُلم کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال موجودہ قوانین،مذہب کے غلط استعمال اورثقافتی رسم ورواج سے پیدا ہوتی ہے،اور معاشرے میں قائم صنفی عدم مساوات کی وجہ سے جاری ہے۔ بچوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق 2020میں بچپن کی شادی کے119 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 95 فیصد لڑکیوں کے اور5 فیصد لڑکوں کے تھے۔

RelatedPosts

پی ٹی آئی لاہور جلسے میں خواتین سے بدسلوکی کی ویڈیوز منظر عام پر آگئیں

کراچی: بیوی کو قتل کرکے اعضا دیگ میں پکانے پر شوہر کےخلاف دہشتگردی کا مقدمہ درج

Load More

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے مطابق 3.6 فیصد بچیوں کی شادی پندرہ سال سے کم عمر میں ہوئی جبکہ18.3 فیصد بچیوں کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں ہوئی۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق3 فیصد پاکستانی بچیوں کی شادی پندرہ سال سے پہلے ہو جاتی ہے جبکہ21 فیصد بچیاں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔ انٹرنیشنل ایجنسی کی ایک اور رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمسن دلہنوں کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔

پاکستان میں کمسنی کی شادی کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ زیادہ تر انتہائی کمزور قوانین،موجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے،بچوں کو چیز یا غلام سمجھنا، معاشرے کا قبائلی اور جاگیردانہ ڈھانچہ،عوام میں کم عمری کی شادی کے نقصانات کی عدم آگہی، شدید غربت، ناخواندگی، مذہبی عقائد، انسانی اسمگلنگ اور حکومتی سطح پر عزم کا فقدان ہے۔ ایک اور بڑی وجہ عمر کے اندراج کا غیر موثّر اور غیر ذمہ دار نظام ہے۔ بچوں خصوصاً بچیوں کی عمر کا درست اندراج ہمارے معاشرے میں ترجیح نہیں، جس وجہ سے شادی کے وقت بچیوں کی عمر میں ہیرپھیر کر لیا جا تا ہے۔ مزید برآں ایک اور خطرناک رحجان کم سن بچیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے ساتھ جڑی شادی ہے۔ سندھ میں عموماً ہندو بچیوں اور پنجاب میں مسیحی بچیوں کو اسلام قبول کروا کر ان کی شادی بڑی عمر کے مسلمان مرد سے کروا دی جاتی ہے۔

بچپن کی شادیوں کے تباہ کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ جنسی زیادتی کی ایک شکل ہے جس میں بچی پر حملہ ہوتا ہے اور اس کا بچپن چھن جاتا ہے۔ یہ بچی کی نفسیاتی بہبوداور فکری، ذاتی اور سماجی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں شادی کرنے والی لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے صنفی برابری کے انڈکس پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں 100لڑکوں کے مقابلے میں87لڑکیاں پرائمری سکول میں داخل ہیں، یہ تعداد سابقہ فاٹا کے لئے 56فیصد تک کم ہے۔

کم عمری میں شادی ہونے والی بچیوں کے ہاں شرح پیدائش زیادہ ہوتی ہے جو آبادی پر قابو پانے کی مہم میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ انھیں خواتین کی نسبت حمل سے متعلق صحت کے زیادہ خطرات کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے بچوں کو صحت کے مسائل ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ پاکستان میں زچہ اورنوزائیدہ بچوں کی اموات کی بلند شرح کا کم عمری کی شادی سے گہرا تعلق ہے۔ کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کو خواتین کی نسبت گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزیدبرآں بچپن کی شادی معاشرے میں غربت کا باعث بنتی ہے جب یہ لڑکیوں کی کمانے کی صلاحیت کو محدود کر دیتی ہے کیونکہ بچیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی۔ لہٰذابچپن کی شادی کم عمر لڑکیوں کی زندگیوں اورروشن امکانات کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی،ان کے بچپن سے انکار،ان کی تعلیم میں رکاوٹ،ان کی صحت کو خطرے میں ڈالنا، اور ان کے مواقع کو محدود کرنا ہے۔

رضامندی شادی کا بنیادی اصول ہے جس میں دونوں افراد کو خودمختاری اور اپنی آزاد مرضی سے قبول یا انکار کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ کیابچی کی رضامندی باخبررضامندی ہوتی ہے؟کیا ایک بچی ذہنی طور پر اتنی پختہ ہوتی ہے کہ وہ دانشمندانہ فیصلہ لے اور ایک نیا خاندان بنا کر اپنی دیکھ بھال کر سکے۔ شادی زندگی بھر کا معاہدہ ہے اور جو بچی یہ نہیں سمجھتی کہ معاہدہ ہوتا کیا ہے اسے اس کے شوہر کے ساتھ معاہدے میں باندھ دیا جاتا ہے۔ایک بچی اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) نہیں رکھ سکتی، اپنا ڈرائیونگ لائسنس حاصل نہیں کرسکتی، ووٹ نہیں دے سکتی، کسی دوسرے معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتی، تو وہ شادی کے معاہدے میں فریق کیسے بن سکتی ہے؟

موجودہ وفاقی قانون چائلڈمیرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929کے گرد مبنی ہے جس میں شادی کی عمر کی حد چودہ سال یا اس سے زیادہ تھی۔ مسلم فیملی لاز1961کے تحت اسے بڑھا کر سولہ سال کر دیا گیا۔ فی الحال قانون لڑکیوں کے لئے شادی کی عمر سولہ سال جبکہ لڑکوں کے لئے اٹھارہ سال مقرر کرتا ہے جو کہ بذاتِ خود امتیازی ہے۔ 2010کی آئینی ترمیم کے بعد بچپن کی شادیوں کی روک تھام صوبائی موضوع بن گیا۔اب تک سندھ واحد صوبہ ہے جس نے اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی پر قانون پاس کیا ہے۔ سندھ میں چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ ایکٹ2013 کم عمری کی شادیوں کو قابلِ سزا اور ناقابلِ مصالحت جرم قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کسی بھی اطلاع پر مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنے طور پر کارروائی کر سکتی ہے اور قانون کو نظرانداز کر کے خاندانوں،برادریوں یا جرگوں میں کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب میرج ریسٹرینٹ(ترمیمی) ایکٹ2015 اب بھی بچیوں کی سولہ سال کی عمر میں شادی کی اجازت دیتا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان وفاقی قانون کی طرح 1929کے ایکٹ پر ہی انحصار کئے ہوئے ہیں جسے تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

پاکستان نے1990 میں معاہدہ برائے حقوق اطفال کی توثیق کی جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کافرد بچہ ہے۔اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے حقوقِ اطفال نے پاکستان کی 2016 میں پانچویں معیادی رپورٹ کے بارے میں اپنے اختتامی مشاہدات اور سفارشات میں نشاندہی کی کہ لڑکوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر(18سال)اورلڑکیوں کی شادی کی کم از کم قانونی عمر(16 سال)میں فرق ہے۔ لہٰذا کمیٹی نے پاکستان کو سفارش کی کہ بچے کی تعریف کے حوالے سے اپنے قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرے تا کہ بچے کو اٹھارہ سال سے کم عمرکے ہر انسان کے طور پر بیان کیا جا سکے۔ یہ خصوصاًچائلڈمیرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929میں ترمیم کرنے کی سفارش ہے تاکہ لڑکیوں کی شادی کی عمر اٹھارہ سال مقرر کرکے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کی عمر کو ہم آہنگ کیا جا سکے۔

پاکستانی حکومت کو حقوق کے لحاظ سے متعدد چیلنجزہیں تاہم اسے لڑکیوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اقوامِ متحدہ کے پائیدارترقیاتی اہداف(SDGs) کے تحت پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک نے 2030 تک اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے شادیوں کی روک تھام کا عہد کررکھاہے۔ اس لئے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچیوں کو کم عمری کی شادی سے بچانے کے لئے پورے ملک میں چاہے وفاقی علاقے ہوں یا صوبائی قانون کے ذریعے پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے مقامی حکومتوں کے مضبوط ادارے ہونے چاہیے۔قانون سازی کے عمل کے دوران مذہب یا رسم ورواج کے نام پر پاکستان کو مسودہِّ قانون پارلیمنٹ سے باہر کسی بھی باڈی کو نہیں بھیجنا چاہیے۔ مضبوط نفاذ کے لئے شادی کی رجسٹریشن کے لئے شناختی کارڈ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

مزید برآں،کم عمری کی شادی کے مُضر اثرات کے بارے میں آگہی پھیلانے کے لئے مُلک گیر مہم چلانی چاہیے۔ قومی کمیشن برائے حقوقِ اطفال اور انسانی حقوق کے دیگر قومی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ اس بات کا نوٹس لیں اور پالیسی سفارشات مرتب کر سکیں۔ بچپن کی شادیوں سے نمٹنے کے لئے ہر بچے کے لئے پیدائش کا اندراج اور تعلیم کا حصول ضروری ہے۔ ایسے امدادی پروگراموں کا نفاذ ہونا چاہیے جو خطرے میں گھِری لڑکیوں کو با اختیار بنائیں۔ لڑکیوں کی تعلیمی انتخاب تک رسائی کوبہتر بنایا جانا چاہیے۔انھیں شادی کے بندھن میں بندھنے کی بجائے سکول بھیجا جائے۔ اس سے نسلوں کو صحتمند اورذمہ دارجبکہ ملک کو خوشحال بنانے میں مدد ملے گی۔

Tags: بچیوں کی کم عمری میں شادیاںپاکستان میں بچیوں کی شادیاںپاکستان میں خواتین حقوقجبری شادیاںخواتینکم عمر شادیاںنبیلہ فیروز
Previous Post

ٹک ٹاکر حریم شاہ کی لندن میں الطاف حسین سے دلچسپ ملاقات، ویڈیو وائرل

Next Post

ٹک ٹاک کو ‘کینسر’ قرار دینے والے فیروز خان بھی ٹک ٹاک پر آگئے

نبیلہ فیروز

نبیلہ فیروز

نبیلہ فیروز انسانی حقوق کی کارکن اور فری لانس اخبار نویس ہیں۔ مصنفہ انگریزی اور اردو اخبارات میں لکھتی ہیں۔ ٹوئٹر پر انکا اکاؤنٹ NabilaFBhatti کے نام سے ہے۔  ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

Related Posts

کراچی میں پانی کا شدید بحران کیوں ہے؟

کراچی میں پانی کا شدید بحران کیوں ہے؟

by محمد توحید
اگست 17, 2022
0

شہر کی آبادی و گنجانیت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں اوربڑھتاہوا درجہ حرات پانی کی طلب میں اضافے کا باعث ہیں جبکہ دوسری...

‘قدرتی آفات میں خواتین کی موت کے امکانات 14 گنا زیادہ ہوتے ہیں’، ہمیں کیا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے؟

‘قدرتی آفات میں خواتین کی موت کے امکانات 14 گنا زیادہ ہوتے ہیں’، ہمیں کیا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے؟

by اقصیٰ یونس
اگست 16, 2022
0

رحیم یارخان،صادق آباد یونین کونسل ماچھکہ کے قریب دریائے سندھ میں باراتیوں کی کشتی الٹ گئی جس سے تقریباً 50 کے قریب...

Load More
Next Post
ٹک ٹاک کو ‘کینسر’ قرار دینے والے فیروز خان بھی ٹک ٹاک پر آگئے

ٹک ٹاک کو 'کینسر' قرار دینے والے فیروز خان بھی ٹک ٹاک پر آگئے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Imran Khan lobbying US CIA Station chief

عمران خان کی لابنگ فرم کا سربراہ پاکستان میں CIA کا سابق سٹیشن چیف ہے

by نیا دور
اگست 17, 2022
0

...

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
1

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,738
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

54 minutes ago

Naya Daur Urdu
پٹرول کی قیمت کم یا بڑھانے کا اختیار اوگرا کے پاس ہے حکومت کا اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے، تیل کی قیمت کا تعین وہی کرتےہیں ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا، حکومت کے پاس جیب سے پیسے دینے کی گنجائش نہیں ہے، شاہد خاقان عباسی ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

1 hour ago

Naya Daur Urdu
شہباز گل کے اوپر آپ جو قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے ہیں کریں کیونکہ انہیں وہ بیان ہرگز نہیں دینا چاہیے تھا، انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اس قسم کا بیان قابل قبول نہیں ہے، سینیٹرفیصل جاوید ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In