پاکستان میں سرحد پار سے مبینہ دہشتگردی، کیا افغانستان میں طالبان فارمولا موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے؟

پاکستان میں سرحد پار سے مبینہ دہشتگردی، کیا افغانستان میں طالبان فارمولا موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے؟
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں مسلسل دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں قبائلی اضلاع سمیت بلوچستان اور پنجاب میں دہشتگرد حملے ہوئے۔

بلوچستان میں گذشتہ دو ہفتوں میں سیکیورٹی فورسز پر تین بڑے حملے کئے گئے جس میں بیس کے لگ بھگ سیکیورٹی فورسز کے جوان جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ قبائلی اضلاع میں بھی سیکیورٹی فورسز پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔

وزیر داخلہ شیخ رشید نے گذشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سرحد پار سے دہشتگرد پاکستان میں داخل ہو کر حملے کر رہے ہیں اور حملے کرنے کے بعد واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔

ان کے مطابق نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے کالعدم تنظیموں کے پاس بھی اسلحے کی ایک بھاری تعداد ہاتھ آئی ہے اور ان تنظیموں کے آپس میں رابطے بھی ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کو اشرف غنی حکومت سے تین خطرات لاحق تھے، جن میں صف اول افغانستان میں حریف ملک ہندوستان کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ، ڈیورنڈ لائن پر متنازعہ موقف اور پاکستان کی کالعدم تنظیموں کے پشت پناہی شامل تھی اور پاکستان یہ توقع کر رہا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد یہ خطرات کم ہو جائیں گے مگر بظاہر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید کا نیا دور سے ان تمام معاملات پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان نے بڑے شادیانے بجائے تھے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو ہمارے دن بدل جائیں گے اور یہاں امن آ جائے گا لیکن اب وہاں طالبان آئے ہیں اور خطرہ پھر بھی پاکستان کو ہے۔ مجھے عجیب لگ رہا ہے کہ ہندوستان مکمل امن میں ہے اور ان کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ پاکستان کے راستے پچاس ہزار ٹن گندم افغانستان بھیج رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے خطرات بڑھ گئے ہیں جبکہ ہندوستان امن میں ہے۔

مشاہد حسین سید سمجھتے ہیں کہ ان تمام معاملات کی ذمہ دار سیاسی اور فوجی قیادت ہے کہ ہم ابھی تک انسداد دہشتگری کی کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنا سکے۔

سیاسی مبصرین اور سیکیورٹی امور کے ماہر کا ماننا ہے کہ طالبان کا ڈیورنڈ لائن پر وہی موقف ہے جو اشرف غنی حکومت کا تھا۔ انڈیا کے حوالے سے ان کی پالیسی جارحانہ نہیں اور نہ ہی پاکستانی طالبان کے خلاف وہ کوئی کارروائی کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ماہ جنوری میں 42 حملے کئے گئے جن میں درجنوں کی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو مارا گیا جبکہ دوسری جانب سیکیورٹی کے ادارے اور فوج کے تعلقات عامہ کا ادارہ آئی ایس پی آر ان حملوں کی تعداد کم بتاتے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار اعزاز سید سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے طالبان سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اعزاز سید سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ناصرف پاکستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں میں تیزی آ رہی ہے بلکہ افغان طالبان بارڈر پر لگی باڑ کو بھی ہٹا رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور میڈیا کی جانب سے مسلسل طالبان کی فتوحات کو سراہا گیا تھا جبکہ اشرف غنی کی حکومت پر مختلف اوقات میں تنقید کی تھی۔

پشاور میں مقیم صحافی اور سیکیورٹی امور کے ماہر لحاظ علی کہتے ہیں کہ آج سے چار سال پہلے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ آئی تھی کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے 6 ہزار سے زائد مسلح افراد موجود ہیں جو پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ ان کے مطابق اشرف غنی پر یہ دباؤ بھی آ رہا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر پاکستانی عسکریت پسند موجود ہیں اور وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کی خلاف استعمال کر رہا ہے مگر اشرف غنی حکومت کی رٹ کابل سے باہر کے صوبوں میں کمزور تھی جس کی وجہ سے وہ کوئی موثر کاروائی نہیں کر پا رہے تھے۔

لحاظ علی کے مطابق افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی تو پاکستان نے مذاکرات کی کوشش کی مگر ایک مہینے سیز فائر کے بعد وہ ختم ہوئی اور مذاکرات ناکام ہو گئے اور اب بھی مشرقی افغانستان میں طالبان کی ایک کثیر تعداد موجود ہے مگر افغان طالبان ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہے کیونکہ 2003 اور 2004 میں جب امریکا نے افغانستان میں ڈرون حملوں سمیت دیگر حملوں میں تیزی لائی تو افغان طالبان نے پاکستان کے قبائلی اضلاع کا رخ کیا اور پاکستانی طالبان نے ان کو پناہ دی تھی تو اب افغان طالبان کے پاس اخلاقی جواز نہیں کہ وہ پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کریں۔

افغان طالبان پاکستانی طالبان کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کررہا ہے؟

صحافی اعزاز سید سمجھتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے۔ ٹی ٹی پی کا جو بھی سربراہ بنتا ہے، وہ افغان طالبان کے ہاتھوں بیعت کرتا ہے۔ اعزاز کے مطابق دونوں گروہوں کا ایجنڈا ایک ہے۔ ایک کا ایجنڈا افغانستان جبکہ دوسرے کا ایجنڈا پاکستان ہے۔ وہ ایک دوسرے سے جتنا بھی الگ ہو جائیں مگر ان کا نصب العین ایک ہے۔

اعزاز سید بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان طالبان نے افغان طالبان کو 2003 اور 2004 میں پناہ گاہیں دی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان پاکستان طالبان کے خلاف کارروائیاں نہیں کر رہے ہیں۔

صحافی لحاظ علی کے موقف کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کے مسئلے پر کئی بار مشاورت ہوئی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ داعش افغانستان میں ایک خطرے کی طور پر موجود ہے۔ اگر پاکستان اور افغان طالبان پاکستانی طالبان پر سختی کرینگے تو پاکستانی طالبان کے پاس داعش میں جانے کا راستہ ہے، جو پھر افغان طالبان اور پاکستان کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔

کیا پاکستان کے عسکری گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کرسکتا ہے؟

مشاہد حسین سید اس نکتے پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس 6 لاکھ فوج سمیت دیگر فورسز اور اس کے ساتھ ساتھ 26 کے لگ بھگ خفیہ ایجنسیاں ہیں تو ان پر ذمہ داری آتی ہے کہ وہ پاکستانیوں کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔

اعزاز سید نے اس نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ایک غیر اعلانیہ آپریشن جاری ہے اور اس کا مرکز اس بار خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع نہیں بلکہ بلوچستان ہے کیونکہ بلوچستان میں عسکریت پسند گروہ پاکستانی طالبان کی طرف رجوع کررہے ہیں جو کہ بہت خطرناک ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔