افغان طالبان پر تکیہ کرنے کی بجائے TTP کا خود حل نکالنا ہوگا

افغان طالبان پر تکیہ کرنے کی بجائے TTP کا خود حل نکالنا ہوگا
گذشتہ سال اگست میں جب افغانستان میں طالبان کابل کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے تو یہاں پاکستان میں ایک سوچ تھی کہ امارت اسلامی کے آنے سے کابل میں ہمارے مخالفین ختم ہو جائیں گے اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان کا معاملہ بھی کسی نہ کسی صورت حل ہو جائے گا۔ لیکن اگر پچھلے پانچ مہینوں کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ الٹا ہی پڑ گیا ہے۔

بلوچستان کے علاقوں نوشکی، پنجگور اور کیچ میں حالیہ حملے اور پھر ضلع کرم میں سرحد پار سے حملے میں پانچ سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت نے ایک مرتبہ پھر سے کئی سوالات کوجنم دیا ہے۔ ملک میں ٹی ٹی پی کے حملے تو تواتر سے کئی سالوں سے ہو رہے تھے لیکن حیران کن طور پر کابل پر طالبان قبضے کے بعد ان میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس دوران پاکستان بظاہر ایک گومگو اور کشمکش کی کیفیت میں بھی رہا کیونکہ ایک طرف وہ طالبان کی دنیا بھر میں وکالت کرتا رہا جب کہ دوسری طرف اسی کی سرزمین سے مسلسل حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن اب بالآخر پاکستان اس بات پر مجبور ہو ہی گیا اور یہ کہنا پڑا کہ ان حملوں کے تانے بانے سرحد پار افغانستان سے ملتے ہیں۔ طالبان کے آنے کے بعد شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان فوج نے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔

بلوچستان میں ہونے والے واقعات یقیناً بڑے حملے قرار دیے جا رہے ہیں اور ملک میں حالیہ برسوں کے دوران اس طرح کے واقعات کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ ان حملوں کے بارے میں بھی یہ اشارے ملے ہیں کہ حملہ آوروں کے ہینڈلرز سرحد پار تھے اور حملہ آور ان سے رابطے میں تھے۔

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ کابل میں طالبان فتح کی صورت میں خطے کے منظرنامے کا غلط اندازہ لگایا گیا تھا۔ یا شاید پھر تمام تر تکیہ امارت اسلامی پر کیا گیا کہ ان کے آنے سے ٹی ٹی پی کا معاملہ باآسانی حل ہو جائے گا۔ لیکن اب یہ مسئلہ سلجھنے کی بجائے مزید سنجیدہ اور گھمبیر ہوتا جا رہا ہے جس کا بظاہر فوری حل کسی فریق کے پاس نظر نہیں آتا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ٹی ٹی پی کے حملے اسی طرح جاری رہیں گے اور یہاں اس پر پہلے کی طرح خاموشی اختیار کی جائے گی یا اب ردعمل بھی ہوگا؟

گذشتہ نومبر میں جب ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان کی ثالثی میں مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو یہاں کالعدم تنظیموں پر کام کرنے والے بیشتر صحافیوں اور تحقیق کاروں کا خیال تھا کہ یہ مذاکرات زیادہ دیر کامیاب نہیں رہ سکتے۔ شاید سب سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ بات چیت کے لئے ساز گار ماحول نہیں بنایا گیا جس طرح اس کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے پاکستان کی تمام بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کالعدم تنظیم سے بات چیت پر سخت تنقید کی گئی اور پھر پیپلز پارٹی نے اس ضمن میں بڑا سخت مؤقف اپنایا۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت میں ٹی ٹی پی ملوث تھی جب کہ دوسری طرف ٹی ٹی پی اس کی تصدیق بھی کرتی ہے۔

شاید دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ تحریک طالبان پاکستان کا سارا معاملہ افغان طالبان کے سپرد کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ امارت اسلامی اس مسئلے کو کوئی وقت ضائع کیے بغیر چٹکی میں حل کر دے گی۔ لیکن بعد کے حالات اور زمینی حقائق اس سوچ سے یکسر مختلف نظر آئے۔

ٹی ٹی پی افغان طالبان اور القاعدہ کی قائم کردہ تنظیم ضرور ہے لیکن کبھی ان کے ماتحت نہیں رہی اور دونوں کے مفادات بھی الگ الگ ہیں۔ ٹی ٹی پی پر نظر رکھنے والے بیشتر تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی ایک حد تک افغان طالبان کی بات مان لے گی لیکن شاید ان کی ہر بات ماننے پر آمادہ نہ ہو، بالخصوص جب پاکستان میں ان کی تحریک سے جڑی کوئی بات آئے گی تو پھر یہ امکان موجود ہے کہ کسی معاملے پر وہ انکار بھی کر سکتی ہے۔

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امارت اسلامیہ نے بیس سال تک امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف 'جہادی' نظریے کے تحت جدوجہد کی جس میں وہ کامیاب بھی رہی اور جس میں پاکستانی طالبان نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس طرح پاکستانی طالبان بھی گذشتہ چودہ سالوں سے اسی 'نظریے' کے تحت ریاست پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں تو اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو افغان طالبان ان کو اپنی جدوجہد سے منع نہیں کر سکتی بلکہ امارت اسلامی تو چاہے گی کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب ہو جائے کیونکہ دونوں کا ایک ہی مشترکہ ایجنڈا ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ امارت اسلامی کی کامیابی پاکستانی طالبان کے لئے ہر لحاظ سے ایک بہت بڑی طاقت کا باعث بنی ہے۔ وہ افغان طالبان کے کابل قبضے کو کسی عسکری تنظیم کی 'کامیاب کہانی' سمجھتے ہیں جس سے نہ صرف ان کو ہر لحاظ سے حوصلہ ملا ہے بلکہ نظریاتی طورپر اسے 'جہاد' کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی کے حالیہ دنوں میں جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں وہ یہی بات کر رہے ہیں کہ امارت اسلامی کی فتح 'جہاد' کی برکت سے ہوئی اور اب اس کے بعد پاکستان کی باری ہے جس کے لئے ان کی طرف سے کوششوں کا اعادہ بھی کیا گیا ہے۔

تو اس بات کو ذہن سے نکالا جائے کہ کبھی امارت اسلامی ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈال کر ان کو پاکستان میں حملوں سے روکے گی۔ اگر وہ یہ کر سکتی تو پانچ مہینے پہلے کر لیتی۔ امارت اسلامی کی قیادت آن دی ریکارڈ یہ بات کر چکی ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔

معروضی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاملے کے حل کے لئے دوسروں پر تکیہ نہ کیا جائے بلکہ ہمیں خود ہی اس قضیہ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ مذاکرات پہلے بھی ہوئے اور اب بھی اس کے لئے کوششیں ہونی چاہئیں لیکن بامعنی۔

اگرچہ تاحال ایسے کوئی شواہد دستیاب نہیں جن سے ظاہر ہو کہ پاکستان میں ہونے والے ٹی ٹی پی حملوں کو امارت اسلامی کی طرف سے درپردہ حمایت حاصل ہے۔ لیکن اگر ان حملوں کی تعداد اس طرح بتدریج بڑھتی رہی تو پھر آنے والے دنوں میں اس شک کو تقویت ضرور ملے گی کیونکہ یہ صرف ایک یا دو حملوں کی بات نہیں ہوئی بلکہ صرف جنوری میں کالعدم تنظیم کی طرف سے 45 واقعات کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔