• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, جنوری 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کیا اپوزیشن عمران خان کو سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہی؟

کہیں آپ عمران خان کو سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہے؟ کہیں آپ انہیں اپنے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک بنانے تو نہیں جا رہے؟ عمران خان کو ہٹانے کا مقصد کسی فرد کو فائدہ پہنچانا ہے یا واقعی پاکستان کی محبت میں مسلم لیگ (ن) استعفوں کا راگ چھوڑ کر تحریک عدم اعتماد کا کڑوا گھونٹ پینے پر راضی ہو گئی؟

حامد میر by حامد میر
فروری 11, 2022
in ایڈیٹر کی پسند, تجزیہ
206 2
0
کیا اپوزیشن عمران خان کو سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہی؟
243
SHARES
1.2k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

مسلم لیگ ن عمران خان کی جگہ آصف علی زرداری کو نیا وزیراعظم بنانے پر تیار ہے لیکن ابھی تک آصف علی زرداری نے ہاں نہیں کی۔ یقین نہیں آ رہا آپ کو؟ میں نے بھی پہلی دفعہ یہ بات سنی تو مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا۔

دو ہفتے قبل مولانا فضل الرحمان کے ایک قریبی ساتھی نے لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کی اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ مولانا صاحب کے اُس ساتھی کا خیال تھا کہ تحریک عدم اعتماد صرف ایک ہی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ فوجی قیادت نیوٹرل رہے۔ شہباز شریف نے بتایا کہ فوجی قیادت نیوٹرل ہے۔

RelatedPosts

‘آصف زرداری نے عمران کی گرفتاری رکوا رکھی تھی، اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا’

‘نواز شریف کے خلاف سازش کرنے والے اللہ تعالٰی کے حساب کتاب کا نشانہ بنے’

Load More

یہ سن کہ مولانا صاحب کے ساتھی نے کہا کہ پھر تو اپوزیشن کو وزیراعظم کے لیے اپنے امیدوار کا جلدی فیصلہ کر لینا چاہیے۔ شہباز شریف نے جواب میں کہا کہ نواز شریف صاحب تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے تو تیار ہیں لیکن نئی حکومت کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔

مولانا صاحب کے ساتھی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم کے لیے یا تو آپ امیدوار بنیں یا آصف علی زرداری امیدوار بنیں۔ شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں آصف علی زرداری زیادہ مناسب رہیں گے لیکن فیصلہ نواز شریف کریں گے۔

مولانا صاحب کے ساتھی نے شہباز شریف کے ساتھ اپنی گفتگو سے مجھے آگاہ کیا تو میں خاموش ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے؟ خاکسار نے محتاط لہجے میں کہا کہ میرے خیال کو چھوڑیے یہ بتائیے کہ مولانا فضل الرحمان کا کیا خیال ہے؟ جواب ملا کہ مولانا اور شہباز شریف آج کل ایک ہی پیج پر ہیں۔ مولانا صاحب کے یہ ساتھی اگلے ہی روز واشنگٹن روانہ ہو گئے۔

میں نے پوچھا کہ آپ واشنگٹن کیا کرنے جا رہے ہیں؟ بتایا کہ انہیں امریکی کانگریس کے اہم اراکان سے ملاقاتیں کرنی ہیں۔ میں نے زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنی حیرانی کو چھپاتے ہوئے موصوف سے اجازت لے لی۔ اس ملاقات کے چند روز بعد آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے ایک اور دوست لندن میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے تھے۔

مجھے ان کی لندن میں موجودگی کی اطلاع ملی تو ان سے پوچھا کہ ملاقات کیسی رہی؟ انہوں نے جواب میں بتایا کہ وہ تو فیملی کے ساتھ وقت گزارنے لندن آئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ذرائع نے بتایا کہ ان کے ساتھ وزیراعظم کے نئے نام پر تبادلہ خیال ہوا ہے اور ہم آصف علی زرداری کے نام پر راضی ہیں۔

ان صاحب نے آصف علی زرداری کو مسلم لیگ ن کی خواہش سے آگاہ کیا تو زرداری صاحب نے کہا کہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے صلاح و مشورے سے کرنا ہے میں نے نہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن بڑی اپوزیشن پارٹی ہے تو بڑا عہدہ بھی اسے لینا چاہیے۔

پیامبر نے ڈائیلاگ بولا کہ ”پاکستان ڈوب رہا ہے، اسے بچا لیں۔‘‘ زرداری صاحب نے کہا کہ اللہ پاکستان کی خیر کرے لیکن سب کو مل جل کر پاکستان کو بچانا ہے۔ اس گفتگو کے دو دن کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول لاہور پہنچے، جہاں انہون نے شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ساتھ ملاقات کی۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ملاقات نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی تائید سے ہوئی۔

آصف علی زرداری نے صورتحال کو سمجھنے کے لیے لاہور میں چودھری برادران سے ملاقات کی۔ چودھری برادران بھی محتاط تھے۔ ادھر ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی وفاقی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے اشارے دیے لیکن چودھری برادران کے قریبی ساتھی سینیٹر کامل علی آغا نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی نیوٹرل نظر نہیں آ رہی۔

دوسرے الفاظ میں انہوں نے اعلان کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ بدستور عمران خان کے پیچھے کھڑی نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کو تحریک عدم اعتماد میں ہماری حمایت درکار ہے تو ہمیں سگنل دلوائے۔ کامل علی آغا کے اس بیان نے ان صاحب کو پریشان کر دیا، جو لندن سے آصف علی زرداری کے لیے پیغام لائے تھے۔

انہوں نے چودھری پرویز الٰہی سے شکوہ کیا تو چودھری صاحب نے کہا کہ پاکستان کی سیاست کے فیصلے اب ٹی وی سکرین پر نہیں بلکہ ٹی وی سکرین کے پیچھے ہوں گے۔ کامل علی آغا کے تھرتھلی آمیز بیان کے اگلے ہی دن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کے قریبی ساتھی سینیٹر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بہت سخت تھا کیونکہ واوڈا صاحب سے کہا گیا کہ وہ بطور رکن پارلیمنٹ اپنی تمام تنخواہیں دو ماہ کے اندر اندر واپس کریں۔

یہ کوئی راز نہیں کہ فیصل واوڈا 2018ء کے الیکشن میں رکن قومی اسمبلی کیسے منتخب ہوئے تھے؟ ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں کیس طویل عرصے سے زیر التوا تھا لیکن عام تاثر یہ تھا کہ طاقتور حلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ سنانے سے گریز کرتا رہا۔

نو فروری کی صبح الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا۔ تحریک انصاف کی قیادت کا خیال ہے کہ جس طرح عمر امین گنڈاپور کی نا اہلی کا فیصلہ عدالت سے معطل کرا دیا گیا ہے اسی طرح فیصل واوڈا کے خلاف فیصلہ بھی معطل ہو جائے گا۔ بہرحال چند دن میں فیصلہ ہو جائے گاکہ کامل علی آغا کا بیان صحیح ہے یا غلط؟

یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پاکستانی سیاست کے اصل فیصلے اب ٹی وی سکرینوں پر نہیں ہوتے۔ اگر سب ٹھیک ہوتا تو عمران خان سارے کام چھوڑ کر جلسے شروع نہ کرتے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے بائیسں ارکان قومی اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) اور دو ارکان کی جے یو آئی (ف) کے ساتھ بات پکی ہو چکی ہے۔

یہ چوبیس ارکان تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا مقصد عمران خان کو مزید کمزور کرنا ہے۔

یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ عمران خان بھی ایک بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ جو صاحبان پاکستان کو بچانے کے لیے عمران خان کو ہٹانے کے لیے متحرک ہیں، ان سے کچھ سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو کیا نیا وزیراعظم آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے حالیہ معاہدے کو منسوخ کرے گا؟

کیا مہنگائی کم ہو جائے گی؟ کیا پارلیمنٹ آزاد ہو جائے گی؟ کیا میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ ختم ہو جائے گی؟ کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی کردار کُشی کرنے والوں کو بے نقاب کر کے سزا دی جائے گی؟ اگر ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تو پھر بتایا جائے کہ عمران خان کو ہٹا کر آپ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

کہیں آپ عمران خان کو سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہے؟ کہیں آپ انہیں اپنے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک بنانے تو نہیں جا رہے؟ عمران خان کو ہٹانے کا مقصد کسی فرد کو فائدہ پہنچانا ہے یا واقعی پاکستان کی محبت میں مسلم لیگ (ن) استعفوں کا راگ چھوڑ کر تحریک عدم اعتماد کا کڑوا گھونٹ پینے پر راضی ہو گئی؟

بشکریہ ڈی ڈبلیو

Tags: hamid mirNo-Confidence MotionPDMPMLNPrime Minister Imran Khanپی ڈی ایمحامد میرمسلم لیگ نوزیراعظم عمران خان
Previous Post

عمران خان کی سیاست ختم ہونے کے قریب، تعیناتی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، آج یا کل فارغ ہو جائیں گے

Next Post

کسی مائی کے لعل میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی جرات نہیں، فواد چودھری

حامد میر

حامد میر

حامد میر پاکستان کے مایہ ناز صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن ہیں۔ وہ واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہیں۔

Related Posts

پاکستانی معاشرے کو عمران کے بجائے بلاول جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے

پاکستانی معاشرے کو عمران کے بجائے بلاول جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے

by عاصم علی
جنوری 28, 2023
0

پاکستان کی 75 سالہ سیاسی اور معاشرتی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک چیز جس نے پاکستان کی سیاست اور معاشرے...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

Load More
Next Post
کسی مائی کے لعل میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی جرات نہیں، فواد چودھری

کسی مائی کے لعل میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی جرات نہیں، فواد چودھری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In