تحریک عدم اعتماد: وہ جادوئی ہندسہ

تحریک عدم اعتماد: وہ جادوئی ہندسہ
سیاست میں کبھی کبھی الفاظ اور اقدامات سے زیادہ تعداد اہم ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی حال کچھ اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا بھی ہے جہاں اپوزیشن اعداد کا موجودہ کھیل اپنے حق میں موڑ کر وزیر اعظم عمران خان کو شہ مات دینے کے لئے تیاری پکڑ رہی ہے۔ جیسے ایک آرکیسٹرا بتدریج دھن کو نکتۂ عروج پر لے کر جاتا ہے، اپوزیشن بھی دباؤ کو بڑھاتی ہوئی مارچ کے اختتام تک اس کی معراج پر لے جانا چاہتی ہے۔ یا کم از کم وہ ہمیں تاثر یہی دے رہی ہے۔

کاش یہ سب اتنا آسان ہوتا۔

سیاسی تبدیلیاں ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق رونما نہیں ہوتیں اور یہی وجہ ہے کہ ستیتھی پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ پیچیدگی کئی متحرک عناصر کے باعث ہے جنہیں آنے والے ہفتوں میں کسی ایک نکتے پر مرکوز کرنا آسان نہیں۔ ان متحرک عناصر کا زائچہ کچھ یوں بنتا ہے:

1۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب کروانے کے لئے اپوزیشن کو 172 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے اور اس کی خاطر انہیں یا تو حکومت کے اتحادیوں کو اس سے علیحدہ کرنا ہوگا یا پھر حکومتی جماعت کے کچھ اراکین کو توڑنا ہوگا۔

2۔ اتحادیوں کا دوسری جانب چلے جانا حالات کی پیچیدگی کو سہل کر دے گا لیکن اس کے لئے انہیں المشہور 'اشارہ' چاہیے ہوگا جو کہ ابھی تک تو واضح انداز میں کہیں موجود نہیں۔ یقیناً اتحادی جماعتیں اپوزیشن کے ساتھ تال میل بڑھا رہی ہیں جس سے یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ شاید کوئی اشارہ کہیں موجود ہو لیکن تال میل بڑھانے سے آگے بات بڑھے گی، فی الحال اس کے کوئی واضح شواہد دکھائی نہیں دے رہے۔

3۔ PTI کے اراکین قومی اسمبلی کو توڑنے کے لئے PMLN کو ان سے اگلے انتخابات کے لئے ٹکٹوں کے وعدے کرنا ہوں گے۔ اگرچہ PMLN کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کہہ چکے ہیں کہ پارٹی ایسے حلقوں میں ان درخواستوں پر غور کر رہی ہے جہاں اس کے اپنے امیدوار مضبوط نہیں لیکن اس کے لئے بھی ٹھوس گارنٹیاں چاہیے ہوں گی خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب حکومت بھی ان ناراض اراکین کو حکومتی بنچز سے باندھے رکھنے کے لئے اپنے ترکش میں موجود ہر حربہ استعمال کرنے کو تیار ہے۔

4۔ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں کیا ہوگا، اپوزیشن جماعتیں بھی نہیں جانتیں۔ PDM کی مشاورت شاید خیالات میں کچھ یکسوئی لا سکے لیکن PPP اس کا حصہ نہیں اور یہ کسی بھی کارروائی کو نتیجہ خیز بنانے میں کلیدی کردار رکھتی ہے۔ وہ جماعتیں جو سمجھتی ہیں کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں اگلی حکومت کو اکتوبر 2023 کے انتخابات تک چلتے رہنا چاہیے، PMLN کو قائل نہیں کر سکی ہیں کہ یہ اس کے لئے بھی فائدہ مند ہوگا۔

5۔ وزیر اعظم عمران خان بھی فارغ نہیں بیٹھے۔ انہوں نے ان منظرناموں پر پورا غور کیا ہے۔ بطور وزیر اعظم وہ بھلے کامیاب نہ ہوئے ہوں لیکن اپوزیشن میں وہ بہت خطرناک تھے۔ اور اب اور بھی خطرناک ہوں گے جب کہ وہ ایک بار طاقت کا مزہ چکھ چکے ہیں اور انہوں نے سسٹم کو اندر سے جان لیا ہے۔ وہ باآسانی راستے سے ہٹائے نہیں جا سکتے۔

شاہد خاقان عباسی ایک ایسے شخص ہیں جو سیدھی سیدھی بات کرنے کے عادی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں انہوں نے بارہا کہا ہے کہ ایک وزیر اعظم کی موجودگی میں اس کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب کروانا آسان کام نہیں۔ اس ضمن میں ان کا ماننا ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار نہیں ہوتی، تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے امکانات روشن نہیں۔ لہٰذا اس داؤ میں وقت کی بہت اہمیت ہے۔ وقت کا تعین غیر جانبداری کے تجزیے پر مبنی ہوگا۔

حال ہی میں سینیٹ میں ہمیں اپوزیشن کی بازی الٹنے کا ایک نظارہ دیکھنے کو ملا۔ کچھ لوگوں سے بات چیت کے بعد سامنے آنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق سٹیٹ بینک بل پر سینیٹ ووٹنگ کے دوران کچھ عجیب ہوا تھا۔ اپوزیشن نے تعداد کا کھیل مکمل کر رکھا تھا۔ انہوں نے دلاور خان گروپ کو دوسری طرف کا حصہ ہی تصور کیا تھا گو کہ وہ اپوزیشن بنچز پر بیٹھتا ہے۔ ان سینیٹرز کے ناموں پر بھی کانٹا لگا دیا گیا تھا جو سفر کر رہے تھے یا علاج کی غرض سے سینیٹ میں حاضر ہونے سے قاصر تھے۔ آخر میں ان کے پاس ایک نمبر آیا۔ اور اس نے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔

یہ مسکراہٹ اس لئے تھی کہ انہیں لگتا تھا کہ اس بل کو ناکام بنانے کے لئے ان کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے۔ یہ آسان نہیں تھا۔ ابتدا میں تقریباً دو درجن سینیٹرز سے رابطہ ممکن نہیں ہو پایا تھا۔ پھر پارٹی لیڈران سے رابطہ کر کے کہا گیا کہ وہ ان سینیٹرز سے بات کر کے ایوانِ بالا میں ووٹنگ کے دن ان کی حاضری یقینی بنائیں۔ ان لیڈران نے اپنے سینیٹرز سے دوٹوک انداز میں بات کی۔ ووٹنگ کا دن بھی کوئی اچانک نہیں طے ہوا تھا جیسا کہ بعد ازاں اپوزیشن میں بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا۔ IMF کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی تھی اور یہ صاف تھا کہ حکومت کسی بھی دن ووٹنگ کروا سکتی ہے۔ اپوزیشن کو تیار ہونا چاہیے تھا۔ اس کے پاس کچھ اندر کی اطلاعات بھی تھیں۔

ووٹ سے ایک دن قبل سینیٹ سیکرٹریٹ نے PTI اراکینِ سینیٹ کو ہوائی جہاز کی ٹکٹیں جاری کرنا شروع کر دی تھیں۔ اس سے منصوبے کا پتہ چل گیا تھا۔ اپوزیشن کے متحرک اراکین نے اس کی سن گن پا لی اور اپنے ساتھیوں کو اطلاع دے دی۔ ووٹنگ ہونے والی تھی۔

جب اپوزیشن نے اپنے تمام اراکین سے رابطہ کر کے ان کی حاضری یقینی بنا لی تو اس کی تعداد 45 تک پہنچ چکی تھی۔ امید تھی کہ یہ تعداد حکومت کا راستہ روکنے کے لئے کافی ہوگی۔

پھر اچانک ایک عجیب چیز ہوئی۔ اپوزیشن کے ایک MNA نے اسلام آباد سے کراچی جاتے ہوئے دیکھا کہ ایک اپوزیشن سینیٹر بھی ان کے ساتھ اس جہاز میں موجود تھے۔ وہ حیران رہ گئے۔ ایک سینیٹر اسلام آباد سے کیسے جا سکتا تھا جب کہ اتنی اہم ووٹنگ ہونے والی تھی؟ جہاز سے اتر کر اس MNA نے اپنے ساتھیوں کو فون کر کے سینیٹر صاحب کی کراچی آمد بارے اطلاع دی۔ یہ سینیٹر صاحب 45 میں سے ہی ایک تھے۔

ووٹنگ کے دن اپوزیشن کی طرف سے 43 ووٹ ڈالے گئے۔ حکومت کی جانب سے بھی۔ پھر سینیٹ چیئرمین نے اپنا ووٹ حکومتی بل کے حق میں ڈال دیا اور یوں بل پاس ہو گیا۔ اپوزیشن کے 45 ووٹوں سے اس روز فتح ہو سکتی تھی۔ دو سینیٹرز لیکن ایوانِ بالا میں نہ پہنچے۔ ان میں سے ایک اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی تھے۔ دوسرے وہ سینیٹر جو اسلام آباد سے جہاز میں کراچی جا رہے تھے۔ ان کا تعلق JUI-F سے تھا۔

وہ جادوئی ہندسہ۔ چھو! چٹکی بجی، اور غائب ہو گیا۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔