قبائلی عوام محرومیوں میں گھرے ہوئے، پی ٹی ایم کے مطالبات سنے جائیں

قبائلی عوام محرومیوں میں گھرے ہوئے، پی ٹی ایم کے مطالبات سنے جائیں
کراچی ہی سے پی ٹی ایم نکلی ہے اور آج ایک بار پھر بدقسمت پشتون اپنے منتخب ایم این اے کے لئے اس بے حس شہر کی سڑکوں پر نکلے ہیں۔ کیا جبر کی زندگیاں ان پشتونوں نے پاکستان میں گزاری ہیں۔ تاریخ کا جبر تو یہی ہے کہ یہی جبر ابھی تک قائم وہ دائم ہے۔

نقیب اللہ کا قتل پاکستان میں بسنے والے پشتونوں کے صبر کے پیمانے کو لبریز کرنے کے لئے آخری قطرہ ثابت ہوا۔ طالبان کے برائے نام مذہبی اصول اور بعد میں حکومت کے فوجی آپریشنز کے نام پر سوات اور قبائلی اضلاع کے عوام بدترین قسم کے جبر اور ریاستی محرومیوں میں گھرے ہوئے تھے۔

یہ مظلوم اٹھے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ لاش اٹھانے سے آواز اٹھانا لاکھ درجے بہتر ہے۔ بقول قتیل شفائی

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

اگرچہ وہ بغاوت نہیں اپنے حق اور ریاست کے ساتھ عمرانی معاہدہ پنڈی اور اسلام آباد کو یاد دلاتے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ معاہدہ ولی خان اور حبیب جالب نے ایک زمانے میں یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔

منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں نے بروقت اور قومی نبض اور آواز کو سمجھتے ہوئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ وہ سفر ہالی ووڈ کی فلم جیسا کٹھن اور دھکمیوں سے بھرپور تھا۔ وہ تو منظور پشتین پر پوری تحریک کا قرض ہے کہ قوم کو بتا دے۔

پشتون تحفظ موومنٹ بننے کے بعد چند ممنوع نعرے، اسلام آباد اور پشاور میں تسلسل کے ساتھ لاؤڈ سپیکرز سے سنائے گئے۔ مجھے نیازبین ملنگ نے کہا کہ پشاور جلسے کے ایک دن پہلے روزنامہ شہباز سے متصل جناح پارک میں ایک میٹنگ ہوئی اور تقریباً پچاس افراد جو کہ ٹاپ لیول کے پالیسی بیان دینے والے تھے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ اشرف روڈ پر نعرہ بازی کرنا ضروری ہے تاکہ شہر کی اس مصروف کاروباری سڑک اور اس کے بغل میں خوف کی علامت قلعہ بالاحصار کے مکینوں کو وطن کے بیٹیوں اور بیٹوں کے دُکھڑے اور شکایات سنائے جا سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس دن وہ ممنوع نعرے جذبات کا برملا اظہار تھا۔ ریاست اور اداروں کو اپنی آواز ایک اور انداز سے سنائی گئی اور یہ باور بھی کروایا گیا کہ اگر صرف چند ہزار افراد بھی سچ اگلنا شروع کر دیں تو بڑی کوٹھیوں والوں کو چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔

بجائے اس کے کہ حکومت پی ٹی ایم کی قیادت کے ساتھ بیٹھ جاتی اور وزارت دفاع کی مدد سے باقاعدہ اعلان کرتی کہ جن جن علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے یا ماورائے عدالت کارروائی ہوئی یا افراد لاپتا ہوئے ہیں، اس پر زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عملی اقدامات ہوتے تو میرا نہیں خیال کہ پاکستانی فوج کے خلاف کھل کر جوان آتے۔

مگر اسلام آباد اور پنڈی کے مکینوں نے پی ٹی ایم کو سننے کی بجائے پاکستان تحفظ موومنٹ کے نام پر روپیہ بانٹنا شروع کر دیا۔ صوابی میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کے ساتھ تصادم ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ پکڑ دھکڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جس کی مثال منتخب ممبر قوممی اسمبلی علی وزیر اور چند اور بے گناہ افراد بھی ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ الزام عائد کیا گیا کہ پی ٹی ایم، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھی ہیں۔ یہ غداری کا منجن اٹک کے اس پار تو کم از کم بکنے والا نہیں کیونکہ ایک زمانہ ہوا پشتون قوم پرستوں کی 'غداریوں' کی ایک لمبی لسٹ پڑی ہوئی ہے۔

ضیاالحق دور میں اجمل خٹک پر افغانستان اور روس سے پیسے لینے کا الزام لگایا گیا تھا مگر جب وفات پائی تو باپ دادا کا کچا گھر وراثت میں چھوڑ گئے۔ یہ نہ تو سوال اور نہ سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان میں غداروں کے گھر کچے اور محب وطن ارب پتی کیسے ہوتے ہیں؟

مگر گذشتہ ہفتے باچا خان مرکز میں پنجاب کے شاندار سیاستدانوں جاوید ہاشمی اور خواجہ آصف نے کھل کر باچا خان، ولی خان اور خدائی خدمتگاروں کو جمہوریت کے بہترین لوگ گردانا اور ان کو اس مٹی کے شاندار افراد کہا۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ اب یہ کھیل کھل کر سمجھ آ چکا ہے۔ حتیٰ کہ صحافی حامد میر نے تو کہا کہ اس دیس کے رائج رواج اور روایت کے مطابق تو محب وطن وہ لوگ ہیں جنہوں نے آئین شکنوں کا ساتھ دیا ہے۔

منظور پشتین اور پی ٹی ایم کیا چاہتے ہیں؟

پشتون پروفائلنگ کو ختم کرنا، آئینی حقوق دلانا، لاپتا افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں اور من گھڑت کہانیوں کا اختتام۔ امن اور صرف امن! اگر ان باتوں سے آپ کو بارود، نفرت اور تعفن کی بو آ رہی ہے تو، دوستو، یہ آپ کی ذہنی گندگی اور کثافت ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ابتدائی دنوں میں چند سیاسی جماعتوں اور بعد میں اپنے ہی دوستوں نے پی ٹی ایم سے راہیں الگ کر لی ہیں اور اس کے علاوہ حکومتی مشینری نے زور لگایا کہ پی ٹی ایم کے اس بیانیے کو کسی بھی طرح سے روک سکے مگر جتنا زور بھائی لوگوں نے لگایا، اس کا دگنا رد عمل بھی دیکھنے کو ملا۔ ابھی حالیہ دنوں میں کراچی جلسہ اس کا سب سے بڑا عملی نمونہ تھا۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی طاقت، جیل، ای سی ایل، دھمکیوں اور اس جیسے دوسرے ہتھکنڈوں کے باوجود بھی پی ٹی ایم کیوں اسی طرح مضبوط اور توانا ہے؟

اگرچہ بہت سے لوگ اب ایکٹو کارکن نہیں رہے مگر جب تک پشتون ہیں تب تک تو حق کے لئے آواز اٹھائیں گے۔ دہشتگردی اور فوجی آپریشنز کے اس عرصہ میں ایک محتاط اندازہ بھی اگر لگا لیں تو 90 فیصد لوگوں کی بے عزتی کی گئی۔ کسی چیک پوسٹ پر تھپڑ اور گالی دی گئی، مرغا بنایا گیا ہے۔ اگر یہ بھی نہیں تو اوئے گدھے کی اولاد والی چیخ تو ضرور سنی ہوگی۔

ان تمام معاملات پر کسی نے انکوائری قائم نہیں کی۔ پتا نہیں معاملے کی جڑ تک جانے میں کیوں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اداروں پر افراد کو فوقیت دی جاتی ہے، جس سے ایک نہ ختم ہونے والا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔

پی ٹی ایم کو ختم اور دفن کرنے کے لئے ان کے مطالبات پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔ آنسو پونچھنا، تسلی دینا، گلے لگانا اور ان جوانوں کو سننا اشد ضروری رہے گا۔

بہت اچھی خبر سنی ہے کہ نئے کور کمانڈر نے مقامی عمائدین اور جوانوں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ چلو دیکھتے ہیں۔ مگر جب تک ٹارگٹ کلنگ، مالی نقصانات، نفسیاتی، جسمانی ٹارچرز کا ازالہ نہیں ہوتا تب تک پی ٹی ایم اور اس کے جارحانہ نعرے نہیں مریں گے۔ علی وزیر کو بے گناہ پابند سلاسل رکھنا اور پی ٹی ایم کے کارواں پر فائرنگ کرنے سے حالات سدھریں گے نہیں۔

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔