نواز شریف کو کچھ ایسا پتہ ہے جو کوئی اور نہیں جانتا۔ انہیں جیت کا مکمل یقین ہے

نواز شریف کو کچھ ایسا پتہ ہے جو کوئی اور نہیں جانتا۔ انہیں جیت کا مکمل یقین ہے
یہ شور کسی چیز بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں اور ایسے میں ریڈ زون میں ایک سوال گونج رہا ہے کہ اپوزیشن اس قدر پُراعتماد کیوں ہے۔ وہ ایسا کیا جانتی ہے جو حکومت نہیں جانتی؟

جواب، باب ڈیلن کے الفاظ میں، ہواؤں میں ہے۔

فرق اتنا ہے کہ ہمارے سیاسی گیت کے بول ابھی لکھے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو معاملات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور پھر ایک تیزی وہ بھی ہے جو ان معاملات کے پیچھے والے معاملات میں دکھائی جا رہی ہے جس کا محور نمبرز گیم پوری کرنا اور نمبرز گیم پوری کرنے کے لئے ہونے والی سیاست ہے۔ لہٰذا اس میں زیادہ حیرت کی بات نہیں کہ کھلاڑیوں سے کھچا کھچ بھرے میدان میں کھیل کیا ہے، یہ مٹھی بھر افراد ہی جانتے ہیں۔

اس کھیل میں خطرات بہت ہیں۔ اپوزیشن نے تحریکِ عدم اعتماد پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ اب پیچھے ہٹنے کی سیاسی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ اور اگر ووٹ میں شکست ہو گئی تو یہ اور بھی بہت کچھ ہار جائے گی۔ حکومت بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور جانتی ہے کہ اس کے پاس اب وہ تمام ہتھیار موجود نہیں جو چند ماہ پہلے تک تھے۔ مگر پھر بھی، یہ اپنے ماضی سے حوصلہ لے سکتی ہے۔ تحاریکِ عدم اعتماد کے ناکام ہونے کی ایک تاریخ ہے۔ چکروں کے اندر چکر ہیں جو بے موقع بھی گھومتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کا گھومنا حقائق سے زیادہ اندازوں پر ہو۔

آج کے حالات میں اندازہ یہ لگانا ہے کہ آیا اسٹیبلشمنٹ واقعی پیچھے ہٹ گئی ہے یا نہیں۔ ریڈ زون میں ہر کوئی ہوا سونگھ رہا ہے کہ حالات کی کچھ سن گن لے سکے۔ کانوں کو زمین سے لگائے کچھ لوگ کچھ معلومات سامنے لے آتے ہیں، لیکن یہ مکمل نقشہ کھینچنے کے لئے ناکافی ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کی ایک اتحادی جماعت کے ایک رکن کو سٹیٹ بینک بل پر فون کال آئی اور کہا گیا کہ شاید یہ اس طرح کی آخری کال ہوگی۔

اپوزیشن ذرائع کے مطابق ایسے ثبوتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ اس کے لئے حوصلہ بخش ہے۔ لیکن حوصلے سے زیادہ اس وقت اسے نمبرز کی ضرورت ہے۔ یہ نمبرز حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی مل سکتے ہیں اور اس کے اپنے ناراض اراکین سے بھی۔ اپوزیشن کے پاس قومی اسمبلی میں 163 (تصحیح شدہ) ارکان ہیں اور عمران خان کو ہٹانے کے لئے اسے 172 کی ضرورت ہے۔ نو کوئی بہت بڑا ہندسہ نہیں ہے لیکن اپنے تمام اراکین کی حاضری یقینی بنانا اور پھر نو اضافی ووٹوں کے علاوہ بیک اپ کے لئے کچھ اضافی ووٹ حاصل کرنا آسان کام نہیں۔

لیکن ایک آدمی ہے جس کے لئے یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ یہ شخص لندن میں بیٹھا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ جیت سکتا ہے۔ ورنہ وہ اس موقع پر اپنا بیانیہ، اپنی پوزیشن اور اپنی حکمتِ عملی کیوں تبدیل کرے گا جب کہ وہ باآسانی ایک سال اور انتظار کر سکتا ہے؟ نواز شریف کے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں۔ ان کے پاس سیاست کا وسیع تجربہ ہے اور وہ اتنے بیوقوف نہیں کہ یوں لاپروائی سے اتنا بڑا جوا کھیل جائیں۔ اگر انہوں نے اس وقت اپنے سب سے بڑے دشمن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے لئے ہاں کی ہے تو ان کے پاس اس کی کوئی منطق ہوگی۔

جواب، ہواؤں میں ہے۔

ہواؤں نے اپنا رخ بدل لیا ہے۔ اور یہ خاصی بڑی تبدیلی ہے۔ 2013 انتخابات کے کچھ ہی عرصے بعد ایک 'اسلام آباد معاہدہ' طے پایا تھا۔ اس کے مطابق ملک کی سمت اور لیڈرشپ کو تبدیل کر کے اس کی راہ تبدیل کیے جانا تھی۔ اس معاہدے کی رو سے عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا اس امید پر کہ پاکستان کی گورننس کا طریقہ تبدیل ہو جائے گا۔ 2018 انتخابات کے بعد یہ معاہدہ ایک 'ہائبرڈ نظام' کی شکل میں سامنے آیا جو اس نئے ماڈل کو کامیاب کرانے کی نیت سے تشکیل دیا گیا تھا۔

پھر چھ ماہ قبل یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ وہ ماڈل جسے تشکیل دینے میں سالوں لگے تھے، کمزور ٹانگوں پر کھڑی ایک حکومت کا وزن برداشت نہ کر سکا۔ کیا ایک نیا 'اسلام آباد معاہدہ' طے پا سکتا ہے؟ اس وقت معاملات کی تیزی یہ بتاتی ہے کہ اس معاہدے کے خدوخال وضع کیے جا رہے ہیں اور اس کے متوقع نتائج پر غور ہو رہا ہے۔ ریڈ زون سے ملنے والی کچھ اطلاعات اس نئے معاہدے کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر، گذشتہ معاہدے میں سامنے آنے والے مسائل پر دوبارہ سے غور کیا جا رہا ہے اور انہیں ٹھیک کرنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں۔ ایک اہم پوزیشن پر ہوئی تبدیلی نے ان مسائل پر نظرِ ثانی کا راستہ کھولا ہے اور پچھلے کچھ ماہ میں بہت سے زخم بھرے ہیں۔ ریاست کے مختلف ستونوں میں رشتہ دوبارہ سے استوار ہوا ہے۔

سیاسی مسائل سے نمٹنا لیکن قدرے مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ گیم کے نتائج کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ بے یقینی زیادہ دیر نہیں رہے گی۔ جہانگیر ترین گروپ کے پاس ایک ایسی چابی ہے جو بہت سے تالے کھول سکتی ہے اور نئی ستیتھیاں سامنے لا سکتی ہے۔ اس گروپ کے پاس پاسہ پلٹنے کے لئے کافی تعداد موجود ہے۔ لیکن اس کے لیڈر کو پتہ ہے کہ چیزیں ہمیشہ ایسی ہوتی نہیں جیسی دکھائی دیتی ہیں۔ اس نے صبر اور تزویراتی خاموشی سے اپنا مشکل وقت کاٹا ہے۔ لیکن اب اس کا فیصلہ کھیل پلٹ سکتا ہے۔ وہ بڑی گیم پر نظر رکھنے والا بندا ہے اور بڑی گیم ہی دیکھ رہا ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی ایک بڑے کھیل کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس کینوس پر بنے تجریدی آرٹ کو عدم اعتماد کے بعد کی تصویر بھی دکھانا ہوگی، اور یہ بھی کہ اگر کوئی نیا معاہدہ ہونا ہے تو اس میں اس کی جگہ کیا ہوگی۔

میچ آخری بال تک جا رہا ہے۔ اس ماہ، زیادہ سے زیادہ اگلے ماہ۔ ہر نئے دن کے ساتھ درجہ حرارت بڑھنے والا ہے۔ لندن میں بیٹھا شخص پُراعتماد ہے۔ اس کا بھائی اسی اعتماد پر عمل کر رہا ہے اور ایک نیا معاہدہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوئی گذشتہ اکتوبر سے آگے بڑھ چکی ہے۔ لیکن یہ رکے گی کہاں؟

جواب، میرے دوست، ہواؤں میں ہے۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔