وزیراعظم کا دورہ روس، کیا پاکستان عالمی طاقتوں سے دشمنی مول لے سکتا ہے؟

وزیراعظم کا دورہ روس، کیا پاکستان عالمی طاقتوں سے دشمنی مول لے سکتا ہے؟
پچھلے دنوں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے دورہ روس کیا۔ ان دنوں کچھ لوگ ان کے دورہ کی مخالفت کر رہے تھے جب کہ کچھ لوگ ان کے دورہ کی اندھا دھند حمایت میں مصروف تھے۔ اس ضمن میں میری بھی سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر کچھ ایسے لوگوں سے بحث جاری رہی جو موجودہ علاقائی حالات میں دورہ روس کی حمایت سے لے کر امریکہ کو گالیاں نکالنے میں بھی پیش پیش تھے۔

ہر شخص کا اپنا نقطہ نظر ہے، مجھے وزیراعظم صاحب کی نیک نیتی اور پاکستان سے محبت میں کوئی شک نہیں۔ میں اس بات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں چاہے وہ سابقہ پرانے دشمن ہی کیوں نہ ہوں۔ اس ضمن میں دورہ روس واقعی قابل قدر ہے مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ اس دورہ کی ٹائمنگ انتہائی غلط تھی اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔

سب سے پہلی وجہ تو روس اور یوکرائن کے کشیدہ تعلقات ہیں جو کہ وزیراعظم پاکستان کی موجودگی میں کشیدگی سے بڑھ کر روس کے یوکرائن پر حملے میں تبدیل ہو گئے تھے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس موقع پر یہ جنگ صرف روس اور یوکرائن تک محدود نظر نہیں آ رہی بلکہ خدانخواستہ روس کے مقابل پورا مغرب اس جنگ میں اترتا نظر آ رہا ہے۔ جس میں نیٹو سے لے کر یورپی یونین تک تمام ممالک شامل ہیں۔

دوسری وجہ جو مجھے نظر آئی وہ یہ ہے کہ اس دورہ کے اس وقت اندھا دھند حمایت کرنے والے محض روس کے مدمقابل امریکہ کو سمجھ کر اسے برا بھلا کہنے میں مصروف تھے اور یہ بھی سننے میں آ رہا تھا کہ اب امریکہ کی غلامی چھوڑ کر روس سے دوستی کر لی ہے اور امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے یہ دورہ کر کے وغیرہ وغیرہ۔

جناب میری رائے میں ان کی سب باتیں مان لی جاتیں اگر روس حالت جنگ میں نہ ہوتا تو، کیوں کہ اس دورہ کے موقع پر روس کے مدمقابل یا مخالفین میں صرف امریکہ نہیں بلکہ تمام یورپ اور جی 7 ممالک شامل ہیں جو اس موقع پر روس کو اتنی اہمیت دے رہا ہو وہ لامحالہ ان تمام ممالک کے مخالف تصور کیا جائے گا۔

اس نازک موقع پر دورہ کرنے کا ایک جواز یہ بھی پیش کیا جا رہا تھا کہ یوکرائن کے پاکستان میں موجود سفیر نے پاکستان سے ثالثی کرنے کا کہا ہے تو اس لیۓ بھی وزیراعظم کا دورہ ابھی پلان کے مطابق کرنا ضروری ہے۔ ہمیں تو دورہ کے بعد سے لے کر اب تک نہ تو اس ثالثی کے بارے میں کسی پیشرفت کی کوئی خبر ملی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آ یا ہے۔

اس موقع کی نزاکت کی بنا پر وزیراعظم صاحب کو کسی ایک فریق کی طرف اپنا جھکاؤ ظاہر کرنے کی بجائے وقتی طور پر اپنا دورہ منسوخ کر دینا چاہیۓ تھا ۔اس موقع پر دورہ روس اسے زیب دیتا ہے جو یا تو روس اور یوکرائن کے درمیان صرف ثالثی کے لئے جا رہا ہو اور یا وہ روس کا بہت پکا ، قریبی دوست ہے۔ مگر ہمارا تعلق ان دونوں گروپوں میں سے کسی سے بھی نہیں ۔

ہماری یہ بھی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم تمام بڑی طاقتوں کو ساتھ لے کر کبھی نہیں چل سکے۔ کبھی ہم سوویت یونین کو توڑنے میں امریکہ کا ساتھ دے کر روس کی مخالفت کرتے ہیں اور کبھی ہم اس وقت دورہ روس کر رہے ہوتے ہیں جب تمام مغربی طاقتیں بشمول امریکہ اور کینیڈا روس کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھے ہوۓ ہیں اور دنیا ایک اور عالمی جنگ کے کنارے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔

غرض ہم اگر دنیا کے حالات دیکھ کر اور موقع کی نزاکت دیکھ کر اپنے فیصلوں میں وقتی طور پر ردوبدل کرلیا کریں تو اس کے پاکستان پر عالمی سطح میں مثبت اثرات پیدا ہوں گے ۔ پاکستان صرف ایک بلاک کا ساتھ دے کر ہمیشہ جلد یا بدیر مشکلات کا شکار رہا ہے۔اس بارے میں بھی غوروخوض کی ضرورت ہے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔